Saturday, September 10, 2016

EID UL AZHA AUR JANDARO SE DOSTI KA NATAK





''ہر سال لاکھوں بے زبان جانوروں کی گردنوں پر مذھب کے نام کی چھریاں چلا کر عقائد کے فریضے ادا کرنے سے تو کہیں بہتر اس رقم سے فاقوں سے مرتی لب دم 
انسانیت کا پیٹ بھرنا ھے''۔

درج بالا جملہ جدیدیت ذدہ مذھب دشمن ذہنیت کی عکاسی ھے جسے مذھب کا اظہار کرنے والی ہر رسم سے چڑ ھے۔ 

کیا یہ اعتراض ایک رات میں دس ہزار کے پیزے کھا کر سونے والوں کو سوٹ کرتا ہے.؟؟

وہ جنہیں زکوۃ صدقات دینا تو دور کبھی اک روپیہ کسی غریب یتیم کو دینے کو توفیق نہیں ہوئی.۔۔
اندازہ لگائیے عید پر جانوروں کی قربانی کے غم میں وہ ہلکان ہوئے جارہے ہیں جو سال بهر چھوٹے بڑے پرندے، نباتات اور مرغ و مچھلی کو ایک ڈکار میں ہضم کرجاتے ہیں ۔۔۔

یہ جانوروں کی سواری بهی بڑے شوق سے کرتے ہیں..
جانوروں کی کھال سے بنے جوتے جیکٹس پہنتے ہوئے بهی انہیں زرا بھی رحم نہیں آتا بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔۔۔!!
جانورں کی چربی سے چراغ جلانے پر بهی ان کے سینے میں درد نہیں اٹھتا !!
جانوروں کے بال اور جسمانی اعضاء اور ہڈی وغیرہ سے بنائے جانے والے مختلف پراڈکٹس کے استعمال کا بھی شوق رکھتے ہیں ۔۔۔
جانوروں کے بھوکے پیاسے مرجانے تک ان کی جیبوں سے ایک پھوٹی کوڑی باہر نہیں نکلتی ۔!!
اعتراض ہے تو قربانی عید پر جانوروں کے ذبح ہونے پر..

حد ہے منافقت کی

سارا سال گائے / مرغی کے گوشت کے برگر ، چکن مٹن کڑائیاں، روسٹ مرغے، سالم بکروں کی سجیاں، بروسٹ، چرغے ڈکار جانے والوں کو قربانی عید پر جانوروں پر رحم آنا شروع ہوجاتا ہے اور غریبوں کے لیے مرے جاتے ہیں ۔۔۔

حالانکہ قربانی عید ایک غریب پرور تہوار ہی ہے ۔۔

قربانی کے گوشت کا اک بڑا حصہ انہی غریبوں کو ملتا ہے جنہیں سارا گوشت نصیب نہیں ہوتا .
وہ بهی ایک غریب ہی ہے جو سارا سال بکریاں اس امید پر چراتا ہے کہ عید پر بیچ کر اپنے سال کے خرچے نکالے گا، بچیوں كى شادى كرے گا.۔۔
اسی طرح قصائی بھی کسی وزیر مشیر کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے جو اپنے سال بھر کے قرضے اسی قربانی پر رکھے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ۔
وہ بھی غریبوں کے بچے ہی ہیں ،مدارس والے جانوروں کی کھالیں بیچ کر جن کی رہائش پڑھائی کے خرچے پورے کرتے ہیں،۔۔۔
یہ کھالیں بیچ کر مفت علاج کی سہولت دینے والی ہسپتالوں میں بھی علاج انہی غریبوں کا ہوتا ہے ۔۔۔
اسی طرح ٹرانسپورٹر جو ان مال مویشیوں کو ادھر سے ادھر منڈیوں میں لاتے ہیں،ٹھیلے والے ،ریڑھے والے ،رکشہ والے یہ سارے بهی لوئر مڈل سے تعلق رکھتے ہیں جو اس معاشی حرکت سے فائدہ اٹھاتے ہیں

فرض کرییے ان سیکولروں کے کہنے پر قربانی پر پابندی لگا دی جاتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔

اس عمل سے سب سے ذیادہ نقصان کس کو ہوگا۔۔۔؟؟

غور کرییے ان سیکولروں کے یہ پٹن تماشے غریب دوستی میں ہیں یا غریب دشمنی میں ۔ ۔ ۔؟؟

گو کہ ہم عبادات کے معاشی فوائد دیکھنے کا قائل نہیں کہ یہ عبادت کی روح ہی ختم کردیتی ہے مگر منكرين حديث , ومنكرين قربانى اور مذہب بيزار دہريہ مخالف ذہنیت کی تسلی کیلئے چند گذارشات پیش خدمت ہیں۔

اگر قربانی کی رسم کو خالصتا معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس پر اعتراض صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس نے علم معاشیات کبھی نہ پڑھی ہو۔ مثلا

(1)
اس کے نتیجے میں آپ کے ملک میں فارمنگ (farming) اور کیٹل انڈسٹری (cattle industry) نمو حاصل کرتی ہے جس سے بالعموم چھوٹا کسان یا غریب طبقہ ہی منسلک ہوتا ہے اور عید قربان پر اسے اپنی محنت کا اچھا مول مل جاتا ہے جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا یوں یہ رسم تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ہے

(2)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام رقم ویسے ہی غریبوں کو دے دی جائے وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں بلکہ غریب طبقے کیلئے معاشی ایکٹیویٹی (activity) کا پہیہ چلانا ہوتا ہے اور قربانی کا عمل اس کا بہترین ذریعہ ہے

، (3) پھر ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانٹا جاتا ہے اور معاشرے کا وہ طبقہ بھی گوشت کھاتا ہے جو پورا سال صرف اس کا خواب ہی دیکھتا ہے

(4)
پھر ان جانوروں سے جو کھال حاصل ہوتی ہے اس سے لیدر پراڈکٹس (leather products) بنتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے

، (5) پھر ذرائع نقل و حمل کے ذرائع سے منسلک لوگ بھی ان دنوں کے دوران جانوروں کی ترسیل کے کاروبار کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ الغرض عید قربان چند دنوں کے دوران اربوں روپے کی خطیرمگربے کار سیونگ (saving) کو سیال مادے (liquid) میں تبدیل کرکے معاشی پہیہ تیز کرنے کا باعث بنتی ہے۔
جو لوگ علم معآشیات میں کینز (Keynes) کے ملٹی پلائیر (multiplier) کے تصور سے واقف ہیں کم از کم وہ تو عید قربان پر معاشی نقطہ نگاہ سے لب کشائی کی جرات نہیں کرسکتے

اس جدید ذہن کی حالت یہ ہے کہ اسے غریبوں کا خیال صرف عید قربان پر خرچ ہونے والی رقم کے وقت ہی آتا ہے جو کہ ہر لحاظ سے غریب دوست رسم ہے۔ البتہ اسے ان کھربوں روپے کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو ہر روز امیر لوگ پیزوں اور برگروں پر اڑا دیتے ہیں

، ان کھربوں ڈالرز کے ضیاع پر یہ کبھی انگلی نہیں اٹھاتے جو یورپ اور امریکہ میں پیٹس (pets) کے کھلونے بنانے میں خرچ ہوتے ہیں

، ان کھربوں ڈالر کے ضیاع پر کسی کو تکلیف نہیں ہوتی جو ہر سال کاسمیٹکس انڈسٹری (cosmetics industry) میں جھونک دئیے جاتے ہیں اور جن کا مقصد اس کے سواء اور کچھ نہیں کہ میں زیادہ طویل دنوں تک جوان نظر آؤں۔

الغرض آپ اپنے اردگرد غور کیجیے کہ ٹریلین ڈالرز کے ان بیش قیمت ذرائع کے بے دریغ ضیاع پر تو یہ ملحد کبھی اعتراض نہیں کریں گے جو اپنی نوعیت میں غریب کے جذبات کچل دینے والے اخراجات ہیں مگر عید قربان کے موقع پر یہ غریب کے کچھ ایسے حمایتی بن جاتے ہیں گویا ان سے بڑا غریب پرور آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ غریب پروری نہیں بلکہ مذہب دشمنی ہے جس کیلیے یہ ہر موقع کے بےموقع استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے
استفادہ تحریر زاہد مغل


No comments:

Post a Comment