Saturday, September 10, 2016

1.falsafa qurbani aur mulhideen ke shuquq o shubhaat


فلسفۂ قربانی اور ملحدین کے شکوک و شبہات ، قسط 3:
***************************************

کیا قربانی سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے؟


ہمیشہ سے ﷲ تعالیٰ کا یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو جس چیز کی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کی پیدائش اور پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جس چیز کی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، آپ پوری دنیا کا سروے کریں اچھی طرح جائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم الشان حکم پر عمل کیا جاتا ہے، کیا ان ممالک میں قربانی والے جانور ناپید ہو چکے ہیں یا پہلے سے بھی زیادہ موجود ہیں؟، آپ کبھی اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے، کہ دنیا سے حلال جانور ختم ہو گئے ہیں یا اتنے کم ہو گئے ہیں کہ لوگوں کو قربانی کرنے کے لیے جانور ہی میسر نہیں آئے، جبکہ اس کے برخلاف کتے اور بلیوں کو دیکھ لیں، ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے؟ حالاں کہ تعجب والی بات یہ ہے، کتے اور بلیاں ایک ایک حمل سے چار چار پانچ پانچ بچے جنتے ہیں، لیکن ان کی تعداد بمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظر آتی ہے۔

مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ ﷲ کا قول: 

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ ﷲ قرآن پاک کی آیت ﴿وما انفقتم من شیٔ فھو یخلفہ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’
اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو ﷲ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں، کائناتِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے، انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے، مگر ﷲ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں، بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں، غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، ﷲ تعالیٰ کا عام دستور یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں، کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطۂ الہٰیہ کے منافی نہیں………………اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ نے جو اشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب ﷲ پیدا ہوتا رہتا ہے، جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، ﷲ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں،جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، ﷲ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا، مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بنسبت کتے بلی کے زیادہ ہے، جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔

عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔‘‘

(معارف القرآن، سورۃ السباء:۳۹، ۳۰۳/۷)رفاہی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے؟:

ہماری اس بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے غریب ومساکین اور ناداروں پر خرچ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہمارا مقصود محض یہ ہے کہ دس ذوالحجہ سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے اس کے لیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے، ہاں! جس شخص پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحبِ نصاب لوگوں کے لیے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقیناً بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے، رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکوٰۃ، صدقۃ الفطر، عشر، کفارات، نذور، میراث،Mufti Syed Adnan Kakakhail (Official):
دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کانظام متعارف کرایا ہے، ان احکامات کوپوری طرح عملی جامہ پہنا کر مطلوبہ نتائج ومقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں، نہ یہ کہ اسلام کے ایک عظیم الشان حکم کو مسخ کر کے تلبیس سے کام لیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے میں ہونے والی خرافات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے، طرح طرح کی مروج رسومات میں ضائع ہونے والے اربوں وکھربوں کی مالیت کے روپیے کو کنٹرول کیا جائے، نہ کہ ایک فریضے میں صرف کرنے والوں لوگوں کو بھی بہکا کر اس سے روک دیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment