Monday, September 26, 2016

QURAN ME GRAMATICAL MISTAKE (URDU)


 قرآن پر اسلام دشمنوں کے اعتراضات کا تحقیقی جوابات





۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(مولاناساجد خان صاحب نقشبندی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اعتراضات نیٹ پر مختلف زبانوں میں گوگل کے ذریعہ سے پھیلائے گئے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)اعتراض):

قرآن میں   وَالْجَآن خَلَقْنٰہُ مِنْ نَارِ السَّمُوْمِ میں ہ ضمیر راجع ہے جمع کی طرف جبکہ جان جمع ہے تو اس کے مطابق ھم ضمیر ہونی چاہئے تھی؟۔

)جواب):عزیز م یہاں جان جمع نہیں بلکہ جنس یا اسم جمع ہے جس کیلئے واحد کی ضمیر آتی ہے جیساکہ قرآن میں ہے اولا یذکر الانسان انا خلقنہ من قبل و لم یک شیاء (سورہ مریم 67) ۔
)
دوسرا جواب ):یہ ہے کہ یہاں جان سے مراد جنوں کا باوا آدم ہے اور ظاہر ہے کہ وہ واحدہے۔

اعتراض

:
سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّھَا الثَّقَلاَنِ یہاں الثقلان تثنیہ ہے مگر اس کیلئے ضمیر لکم آئی ہے حالانکہ اس کی جگہ لکما آنا چاہئے تھا۔

جواب : یہاں ثقلان سے مراد جنس سے جن و انس فردمراد نہیں ،بلکہ دونوں جماعتیں اور ان کے افراد مرادہیں اور وہ جمع ہیں جیساکہ دیگر مقامات پر فرمایا  فَاِذَا ھُمْ فَرِیْقَانِ یَخْتَصِمُوْنَ نیز فرمایا ھَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ  یہاں خصمان اگرچہ لفظا تثنیہ ہے مگر معنی جمع ہے کیونکہ اس سے ہر دو فریق فریق مسلم و فریق کافر جس کے تحت کئی افراد ہیں مراد ہے ۔نیز تثنیہ واحد کے بجائے جمع کے زیادہ قریب ہے دو افراد کی اکھٹے نماز کو جماعت کہا جاتا ہے انفرادی نما ز نہیں اس لئے جمع کی ضمیر لائے دیکھو قرآن میں ہے اِنْ تَتُوْباَ اِلیَ اللّٰہِ فَقَدْ ضَغَتْ قُلُوْبُکُمَا  ذکر دو خواتین کا ہے مگر ان کے دل کیلئے قلوب جمع لائے ہیں۔

اعتراض
:
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّ جَ الجاہلیۃ   یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطہیرا یہاں خطاب امہات المومنین سے ہے اس لئے عنکم مذکر کی ضمیر جمع کے بجائے عنکن آنی چاہئے تھی۔

جواب :یہاں اہل کا لفظ دراصل ذکر کیا ہے جو عزیز و اقارب کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے چونکہ بظاہر اہل کا لفظ جمع مذکر ہے اسلئے ضمیر میں بھی اسی کی رعایت رکھی گئی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے وََ ھلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی اِذْ رَأَی نَاراً فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْا اِنِّیْ ٰانَسْتُ نَاراً لَّعَلِّیْ ٰاتِیْکُمْ مِنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدیً یہا ں اہل سے مراد حضرت موسی علیہ السلام کی بیوی ہیں اس کے باوجود اہل کے ظاہر کی رعایت کرتے ہوئے صیغہ جمع مذکر کے لائے گئے ہیں۔قَالُوْ ا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَت اللہ و برکاتہ علیکم اہل البیت یہاں پر بھی خطاب حضرت زکریا علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کو ہے مگر ضمیر اہل بیت کی رعایت کرتے ہوئے جمع مذکر کی لائے ہیں۔

اعتراض

:
جناب معطوف ،معطوف علیہ بیک وقت پانچ چیزوں میں یکسانیت ہونا ضروری ہے اس میں ایک افراد ،تثنیہ ،جمع بھی ہے اب قرآن میں ہے وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَأْسِ ۔یہاں الصابرین کا عطف الموفون پر ہے جوکہ مرفوع ہے تو الصابرین کو بھی الصابرون مرفوع ہونا چاہئے تھا جبکہ یہ منصوب ہے ؟۔

(
جواب):یہاں الصابرین، الموفون پر معطوف نہیں بلکہ یہ امدح فعل محذوف کا مفعول بہ ہے ای اَمْدَحُ الصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآء۔

اعتراض

:
قرآن میں ہے اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَاَّلذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِءُوْنَ وَالنَّصَارٰی مَنْ آمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحاً اس میں الصابؤن کا عطف اِنَّ حرف از حروف مشبہ بالفعل پر ہورہا ہے لہذا یہ اس کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب ہونا چاہئے تھا مگر یہ تو حالت رفعی میں ہے؟۔

جواب : اگر قرآن میں نحوی غلطی ہوتی تو دوسرے مقام پر بھی ہوتی جیسا کہ یہی مضمون ایک اور مقام پر یوں بیان ہوا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِءِیْنَ وَالنَّصَارٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْن اَشْرَکُوْا انَّ اللہ یفصل بینھم یوم القیامۃ یہاں یہ منصوب ہے ۔دراصل جس آیت پر آپ کو اشکال ہوا وہاں الصابئین کا عطف اِنَّ پر نہیں ہورہا بلکہ دراصل یہ دو جملوں کا مجموعہ ہے پہلا جملہ ان الذین آمنوا ہے اور مفلحون محذوف اس کی خبر ہے ۔ آگے والذین ھادوا میں واو عاطفہ نہیں بلکہ استینافیہ ہے اور یہ مبتداء ہے اور آگے واو عاطفہ ہے اورالصابؤن کا عطف ھادوا پر ہورہا ہے۔ اور آگے مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ الآیۃ اس کی خبر ہے اور تقدیری عبارت یوں ہوگی
وَالْیَھُوْدُ وَالصَّابِءُوْنَ وَالنَّصٰارَی الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ مِنْھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔

اعتراض
:
قرآ ن میں ہے مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْنَ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَتْ مَا حَوْلَہُ ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ وَ تَرَکُھُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبْصِرُوْنَ
یہاں بنورھم کی ضمیر کا اعادہ استوقد پر ہورہا ہے اور یہ واحد کا صیغہ ہے ضمیر بھی واحد توبِنُوْرِھِمْ کی جگہ بِنُوْرِہٖ ہونا چاہئے تھا۔واحد پر جمع کی ضمیر کا اعادہ کیسے ممکن ہے ؟

جواب :جہالت ہے دراصل یہاں’’ تشبیہ تمثیلیہ ‘‘کا بیان ہے جس میں ایک حالت کو دوسری حالت سے تشبیہ دی جاتی ہے تو یہاں بھی منافقین کی حالت کی تشبیہ اس شخص کے ساتھ دی جارہی ہے جو آگ جلائے اور اللہ اس کو بجھادے تو وہ اس آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے یہاں بنورھم میں ھم ضمیر جمع مشبہ کی حالت کی رعایت رکھتے ہوئے لائے گئی ہے اور وہ منافقین ہیں نہ کہ مشبہ بہ جوکہ آگ جلانے والا ہے کیونکہ تشبیہ تمثیلیہ میں مقصود مشبہ ہوتا ہے مشبہ بہ نہیں ہوتا۔بنورھم کی ضمیر کا اعادہ مثلھمپرہے پس ا ب معنی یہ ہواکہ ان منافقین کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو آگ جلائے اور بجھ جائے کوئی انتفاء حاصل نہ کرسکے اسی طرح ان منافقین کانور بھی اللہ نے چھین لیا ہے اب یہ نور ایمان سے استفادہ حاصل نہیں کرسکتے۔
مثل المنافقین فی عدم استفادتھم من الایمان کمثل رجل استوقد نارا فلما اضائت ما حولہ ذھب اللہ بنارہ فلم یستفد منھا وکذالک المنافقون ذھب اللہ بنورھم فلم یستفیدوا من الایمان۔

اعتراض
:
سورہ بقرہ آیت 36 میں ہےِ انَّ اللّٰہَ لاَ یَسْتَحْیِی اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا اس میں فما فوقھا آیا ہے حالانکہ بلاغت کا تقاضہ تھا کہ یوں کہا جائے بعوضۃ فما اصغرھایعنی مچھر اور اس سے بھی چھوٹی چیز۔مچھر کے بعد تصغیر کے معنی والا صیغہ ذکر کرنا چاہئے تھا نہ کہ تکبیر والے معنی کا ۔

جواب :دراصل اہل عرب مچھر کو ذلت و حقارت کے بیان کیلئے ذکر کرتے ہیں توگویا جثہ یعنی جسم مراد نہیں بلکہ معنی مراد ہے یعنی اس کی حقارت تو یہاں بھی معنی کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اللہ مچھر کی مثال بیان کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتا تو حقارت و ذلالت میں اس سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہو تو اس کی مثال بیان کرتے ہوئے وہ کیوں شرمائے؟۔

دوسرا معنی یہ کہ یہاں جسم ہی مراد لو تو اس صورت میں یہ معنی ہوگا کہ اللہ نے مکڑی و مکھی کی مثالیں قرآن میں دیں تو اہل یہود اس پر معترض ہوئے کہ ان حقیر چیزوں کی مثالیں کیوں ذکر کی؟ تو اللہ نے بطور تعریض زجر و توبیخ کے کہا کہ اللہ تو مچھر کی مثال بیان کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتا تو اگر قرآن میں اس سے فوقھا یعنی اس سے بڑھ کر مکڑی و مکھی کی مثال بیان کردی تو کیوں اس پر شرمائے؟

قرآن کی بلاغت پر معترض اس جاہل کو اتنا بھی علم نہیں کہ ’’فوق‘‘از قبیل اضداد نہیں بلکہ ’’علو،عدد،صغر،کبر، قہر ، غلبہ‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے علماء نے اس کے مختلف ۶معنی بیان کئے ہیں جو سب قرآن میں مستعمل ہیں انظر بصائر ذوی التمیز فی لطائف الکتاب ،ج4،ص200۔
کلام عرب میں النملۃ فوق النملۃ اور الحمار فوق الحمار کی امثلہ موجود ہیں جس سے مراد اصغر من النملۃ والحمار ہے ۔علامہ سیوطی ؒ نے تو المزھر فی علوم اللغۃ میں لکھا ہے کہ فوق ’’دون‘‘کے معنی میں بھی مستعمل ہے تو اعتراض ہی ختم۔جیسے القشیب نئے اور پرانے اور زوج میاں اور بیوی دونوں کیلئے مستعمل ہے اسی طرح فوق بھی اوپر نیچے چھوٹے بڑے کیلئے مستعمل ہے ۔مختار الصحاح میں فوق کو’’دون‘‘ کے معنی میں لیکر مثال دی گئی فلان صغیر ھو فوق ذالک ای اصغر ذالک من ذالک ۔جس طرح فوق دون صغر کے معنی میں مستعمل ہے دون بھی فوق کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے قولھم ان فلانا لشریف فیجیب الاخر فیقول و دون ذالک ای فوق ذالک (تاج العروس)۔

قرآن پر نحوی اور معنوی اعتراضات کرنے والے اس جاہل کی اپنی بلاغت کا یہ حال ہے کہ فما فوقھا کی جگہ فما اصغرھا کہہ کر ہماری ٹھیٹ اردو میں ’’بلاغت کی ماں بہن ایک کررہا ہے ‘‘ حالانکہ اگر اس کی جگہ کوئی لفظ آنا بھی تھا تو ما اصغرھا نہیں بلکہ ما دونھا ذکر کیا جاتا ۔

Saturday, September 10, 2016

kya janwer sirf eid - qurba per hi zuba hote ha ?







خواجہ اجمیری رح کے پاس اک عورت اپنا بچہ لے کے آئ کہنے لگی! حضور میرا یہ لڑکا ہے ، یہ شکر بہت کھاتا ہے ، اسے منع کیجئے ، کہا ، کل آنا ، کل لڑکے کو لے کر آئ تو پھر سے کہہ دیا کہ کل آنا ، تیسرے دن لوٹی ، تو بولے اُن دنوں میں نے خود شکر کھا رکھی تھی ، سو میرا اس فعل سے کسی کو منع کرنا ، اصولاً ناجائز تھا!!

عید قرباں


گوشت خوری 
_
اب معاملہ یوں ہے کہ حفظِ ماتقدم ہمارے حریفین شیطین نے اک شگوفہ جوڑا کہ عید قرباں پہ جانور کاٹنا کھانا جانور پہ ظلم ہے! میں زیادہ وقت نہیں لوں گا __ !

1.MacDonald’s
2. Subway
3. Starbucks
4. Wendy’s
5. Burger King
6. Taco Bell
7. Dunkin’ Donuts
8. Pizza Hut
9. KFC
10. Chick-fil-A
11. Sonic Drive-In
12. Domino’s Pizza
13. Panera Bread
14. Arby’s
15. Jack in the Box
16. Dairy Queen
17. Chipotle Mexican Grill
18. Papa John’s
19. Hardee’s
20. Popeyes Louisiana Kitchen

یہ دنیا کی عظیم سیکولر سٹیٹس کی بیس سب سے بڑی فاسٹ فوڈ چینز ہیں ، اگر آپ مجھ پوچھیں کہ انکا بیسک فوڈ انگریڈینٹ کیا ہے؟ تو میں کہوں گا “چکن” بیف ” مٹن “!

جس لمحہ وہ حضور مظلومیت ِ جانوراں پہ قلمی جہاد کر رہے تھے اُسی لمحے اسی روشن خیال کی والدہ ِ ماجدہ کچن میں چھوٹے گوشت کا قیما بنا رہی تھی! جانوروں کے حقوق کے مجوِزہ ٹھیکداران کو جب جب بے وقت کی بھوک ستائے تو سب سے مہنگے ریسٹورینٹ پہ چکن زنگر برگر ، اٹیلین پیزا ، چیسٹ پیس ، لیگ پیس ، ملائ بوٹی ، سجی ، کڑھائ گوشت ، سیخ کباب ، بند کباب ، ڈرم سٹکس ، کلب چکن سینڈ وچ ، چکن فرائیڈ سینڈوچ ،چکن شوارما ،چکن پراٹھا رول ،چکن منچورین ،ریشمی کباب ، بیف کباب ، آلو گوشت ،نمکین گوشت ، کوفتے ، مغز مسالہ ،مٹن چنا دال ،وائیٹ بیف رول ،بیف چلی ،چانپ فرائیڈ ،مٹن بریانی ، بمبے بریانی ،چکن فرائیڈ تھریڈ رول ،چکن راٰئس ( پلاؤ) ،بوآلڈ چکن رول ، کھائے بغیر معدہ و ماحول ِ معدہ وطبعیت سہل نہیں ہونے آتی! مرغی خانے ، ڈیری ہاوس ، بکری فارم سے جدید سلاٹر ہاوسز تک سلاٹر ہاوسز سے تازہ گوشت مارکیٹ سے ریسٹورینٹ میں آتا ہے تو کیا بغیر زبح کیے بغیر کھال اتارے بغیر جان اُتارے بغیر دل گردہ پھیپھڑا الگ کیے بغیر ہڈی بوٹی الگ کیے بغیر چھری دکھائے بغیر ایزا دیے بغیر لہو بہائے بغیر جان لیے آپکے پیٹ میں اتر آتا ہے؟ ؟ ہم بروز عید قرباں جانور کو چھری دکھائیں تو ظالم بے رحم ٹھہرائے جائیں واہ تف منطق! یہی ملحد آگے پیچھے گوشت کو پراپر ڈائیٹ ، پروٹین وٹامن اے ،سی ،کے کا منبہ صحت انساں کے لیے بائیس مفید امائینو ایسڈ کا زریعہ سمجھ منہ میں ٹھونس ٹھونس نگل رہے ہوتے ہیں؟ تب جانور کا درد دانت کے نیچے محسوس کرنے سے قبل ڈاکڑ صاحب کا نسخہ یاد آجاتا ہے کہ بچے کو میٹ پروٹین کی اشد ضرورت ہے اسکے بغیر صحت آخری زاویے پہ پہنچ کے قفس ِ عنصری سے پرواز مار جائے گی تب نہ چھری کا خیال نہ قصائ کا خیال ، حقوق انجمنِ جانوراں کا متفقہ ڈھولکی باز ماچس کی تیلی سے جبڑوں میں دھنسی بوٹیوں کے ریشے نکال رہا ہوتا ہے ظالم گوشت خور بے حس بدقماش بے رحم بے مروت ،
جانور کا اتنا ہی احساس ملحوظ ہے تو سب سے پہلے آں جوتے اتار کے ننگے گھومیے یا لوہے پلاسٹک لکڑی کے جوتے پہنیے ، کاسمیٹک (چربی سے) سے لے صابن تک صابن سے لے کر بیگز تک بیگ سے لے کر جیکٹس تک جیکٹس سے لے کر فٹ بالز ، جوتوں تک اسی مظلوم قربانی کے کٹے بکرے گائے کی کھال کا پہنتے ہیں،Hush puppies,Service ,BATA ,Novelty یہ برانڈ جسے پاؤں میں ٹھونس کے گھومتے ہیں یہ انہی مظلوم قربانی کے جانوروں کی مرہونِ منت ہیں
انجمن ِ منافقاں!! کوئ گائے ہوتی ہے کوئ بکری کوئ مرغی ہوتی ہے کوئ شرم ہوتی ہے کوئ حیا ہوتی ہے __
__!
حد ِ منافقت کہ جب ہم خدا کے نام پر جانور غربا یتاماں ومساکیں جنہیں سالہا سال گوشت کی چھینٹ بھی نصیب نہیں ہوتی جنکے بدن اچھی مرغن غزا سے کب سے نابلد تھے ، گوشت کا زائقہ جنکے بچوں نے کبھی نہ سونگھا ہوگا، جن کے نقاہت انگیز بدن خوراک سے نڈھال بے حال تھکے درماندہ ، چہروں پہ پیلاہٹ ، کمزوری خمیدہ کمر خط غربت سے نیچےآتے مساکین کے طبقے کو جب ہم اپنی جیب کاٹ کے گوشت کھلاتے ہیں تو کیوں ان حرامی منافق گوشت خوروں کاہے تکلیف ہونے کو آنے لگتی ہے؟؟؟

 ہیومن رائٹس کے کاغزی کرتا دھرتا جانور کے حقوق چھری کے نیچے ہائ لائٹ کرنے والے انسانی جسمانی حقوق بلحاظ ِ خوراک کاہے بھول گئے؟؟؟ یاد رہے انسان اہم ہے ناکہ جانور ، جانور کو چھری تک اسکے حقوق پہچانا انسان کے زمہ ہے اسکے بعد اسکی خوراک بننا جانور کے ذمہ ہے! یونیورسل سوشل سائٹیفیک فیکٹ ہے! مگر یہاں ٹکے کوڑیوں کے بھاؤ پہ ملحد اسلام دشمنی پہ شگوفے چھوڑنے کا حق کوکھ مادر سے ہی لے کہ پنگھوڑے میں اترتے ہیں! 

.منافق

حکم ِمزبح یہ ہے کہ چھری ٹھنڈی نہ ہو تیز ہو ، جانور پیاسا نا ہو، جانور بھوکا نا ہو، جانور کو جانور کے سامنے نہ کاٹا جائے ، جانور کی ایک جھٹکے میں شہ رگ اور سپائنل کارڈ کا ریشا کاٹا جائ ، چھری بھی دیکھ نا پائے جانور ، ایک جست میں کاٹا جائے _ میڈیکل سائینس کے مصداق جتنی تیزی اور جلدی سے دماغ کی رگ اور شہہ رگ کٹے گی جانور اتنا ہی درد کم محسوس کرے گا ، کٹ جانے کے بعد جانور پاؤں اس لیے نہیں مارتا کہ درد ہو رہا ہے بلکہ اسکے ریفلکیس سگنل جو کہ میسج ہوتا ہے وہ دماغ کو نہیں جا پارہا ہوتا ، دماغ سُن اور خاموش اور بےحس ہو چکا ہوتا ہے ، درد دماغ محسوس کرتاہے جبکہ دماغ کی رگ ہی کٹ گئ کیبل کٹ گئ جھٹکے میں درد زیرو دماغ محسوس ہی نہیںں کر پاتا ، جیسے ڈاکٹر انجیکٹ کرکے چاہے جو مرضی عضو کاٹ لیں ، جانور قطعی طور پر درد محسوس نہیں کر رہا ہوتا وہ صرف سگنل کی دماغ کو ترسیل میں رکاوٹ کی وجہ سے میسج لے جانے والی کیبل منقطع ہو جانے کے بعد پھدکتا ہے __ سو یہ چھری تلے کسی لحاظ سے ظلم نہیں ، بلکہ آسان ترین موت ہے!

فوزیہ جوگن نواز 

1.falsafa qurbani aur mulhideen ke shuquq o shubhaat


فلسفۂ قربانی اور ملحدین کے شکوک و شبہات ، قسط 3:
***************************************

کیا قربانی سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے؟


ہمیشہ سے ﷲ تعالیٰ کا یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو جس چیز کی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کی پیدائش اور پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جس چیز کی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، آپ پوری دنیا کا سروے کریں اچھی طرح جائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم الشان حکم پر عمل کیا جاتا ہے، کیا ان ممالک میں قربانی والے جانور ناپید ہو چکے ہیں یا پہلے سے بھی زیادہ موجود ہیں؟، آپ کبھی اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے، کہ دنیا سے حلال جانور ختم ہو گئے ہیں یا اتنے کم ہو گئے ہیں کہ لوگوں کو قربانی کرنے کے لیے جانور ہی میسر نہیں آئے، جبکہ اس کے برخلاف کتے اور بلیوں کو دیکھ لیں، ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے؟ حالاں کہ تعجب والی بات یہ ہے، کتے اور بلیاں ایک ایک حمل سے چار چار پانچ پانچ بچے جنتے ہیں، لیکن ان کی تعداد بمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظر آتی ہے۔

مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ ﷲ کا قول: 

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ ﷲ قرآن پاک کی آیت ﴿وما انفقتم من شیٔ فھو یخلفہ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’
اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو ﷲ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں، کائناتِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے، انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے، مگر ﷲ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں، بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں، غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، ﷲ تعالیٰ کا عام دستور یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں، کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطۂ الہٰیہ کے منافی نہیں………………اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ نے جو اشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب ﷲ پیدا ہوتا رہتا ہے، جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، ﷲ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں،جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، ﷲ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا، مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بنسبت کتے بلی کے زیادہ ہے، جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔

عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔‘‘

(معارف القرآن، سورۃ السباء:۳۹، ۳۰۳/۷)رفاہی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے؟:

ہماری اس بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے غریب ومساکین اور ناداروں پر خرچ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہمارا مقصود محض یہ ہے کہ دس ذوالحجہ سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے اس کے لیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے، ہاں! جس شخص پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحبِ نصاب لوگوں کے لیے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقیناً بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے، رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکوٰۃ، صدقۃ الفطر، عشر، کفارات، نذور، میراث،Mufti Syed Adnan Kakakhail (Official):
دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کانظام متعارف کرایا ہے، ان احکامات کوپوری طرح عملی جامہ پہنا کر مطلوبہ نتائج ومقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں، نہ یہ کہ اسلام کے ایک عظیم الشان حکم کو مسخ کر کے تلبیس سے کام لیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے میں ہونے والی خرافات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے، طرح طرح کی مروج رسومات میں ضائع ہونے والے اربوں وکھربوں کی مالیت کے روپیے کو کنٹرول کیا جائے، نہ کہ ایک فریضے میں صرف کرنے والوں لوگوں کو بھی بہکا کر اس سے روک دیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

qurbani ( eid ul azha ) ki haqiqat kya hai ?


فلسفۂ قربانی اور ملحدین کے شکوک و شبہات، آخری قسط 

***************************************



قربانی کی حقیقت کیا ہے؟



اگر قربانی کی حقیقت پر نظر ہو تو بھی یہ وسوسہ پیدا نہیں ہو سکتا، قربانی تو یادگار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی، کہ ان کو حکم دیا گیا تھا، کہ اپنا بیٹا ذبح کرو، حالانکہ دوسری طرف خود قرآن کا اعلان ہے کہ قتل کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے، نیز بچوں کو تو جہاد کی حالت میں بھی بغیر کسی عذر کے قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، الغرض عقل کبھی بچے اور بالخصوص اپنے معصوم بچے کے قتل کو تسلیم نہیں کر سکتی، لیکن قربان جائیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کہ انہوں نے ﷲ سے یہ نہیں پوچھا کہ اے ﷲ! جو بچہ مجھے برسہا برس دعائیں مانگنے کے بعد ملا، آخر اس کا قصور کیا ہے؟ اور اگر قصور ہے بھی اس کو مارنے سے کیا حاصل ہو گا؟ نہیں ، اس لیے کہ جہاں اور جس کام میں ﷲ کا حکم آ جاتا ہے وہاں چوں چرا کی گنجائش نہیں رہتی، چاہے نفع نظر آئے یا نقصان۔
دوسری طرف قربانی کے جانور پر آنے والے اخراجات کا جائزہ لیجیے، آج کے اس مہنگائی والے دور میں بڑے جانور میں حصہ لینے کے لیے آٹھ یا نو ہزار روپے کافی ہیں اور اگر چھوٹا جانور لینا چاہیں تو بارہ سے پندرہ ہزار روپے میں کام چل جاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد سوچیے کہ اگرﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں حکم ہو کہ تمہیں اختیار ہے کہ تم اپنا بیٹا قربانی کے لیے ذبح کرو، یا اس کی بجائے (بارہ سے پندرہ ہزار روپے کا)جانور ذبح کرو۔تو بتلائیے کہ کون کس کو ترجیح دے گا، یقیناً بیٹے کے ذبح کے مقابلہ میں ہر عقل مند جانور ذبح کرنے کو ترجیح دے گا۔اب ایک نظر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ڈالیے کہ جب ان کو بیٹا ذبح کرنے کاحکم ملا (اور حکم بھی صراحۃً نہیں ملا، بلکہ خواب میں اشارۃً بتلایا گیا) تو انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی رُک کر یہ نہ پوچھا کہ یا باری عز وجل! اس میں میرے لیے کیا نفع ہے اور کیا نقصان؟اور ایک ہم ہیں کہ معمولی سا جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس میں میرا کیا نفع ہے؟اس کی بجائے یہ ہو جائے، وہ جائے، وغیرہ وغیرہ یہ قربانی کی روح کے خلاف ہے، یہ سوال کرنے والا درحقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب ﷲ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے ﷲ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں، اسی کی طرف ﷲ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ﴿فلما أسلما﴾جب انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا……۔ تو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے ایک ذہنیت دینا مقصود ہے، جسے فلسفۂ قربانی کا نام دیا جاتا ہے ، وہ یہی ہے کہ جب ﷲ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے ﷲ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں۔
سو ضرورت ہے کہ منکرینِ قربانی ، ملحدین اور مستشرقین وکفار کے اس زہریلے پراپیگنڈے کے مقابلے میں اہلِ اسلام پُرزور طریقے سے اس حکم پر عمل پیرا ہوں، اسی میں اہلِ اسلام کی خیر وبقا کا راز اور دینِ اسلام کی حفاظت مضمر ہے۔
اللہم وفقنا لما تحب وترضیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

HAJ AUR QURBANI KI AQLI TAUJIHAT





قربانی اور حج کی عقلی توجیہات اورملحدوں کی چال بازیاں۔



کوئی ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصے سے اس بات پر سوال اُٹھایا جاتا رہا ہے کہ قربانی اور حج جیسی عبادات کی رسومات کیوں ادا کی جائے؟ آخر معاشرے کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جو پیسہ اس میں خرچ ہوتا ہے اس کو کیوں نہ غریبوں اور محتاجوں کی ضرورت پوری کرنے میں لگایا جائے۔ وغیر وغیرہ۔
آج کل بھی اسی طرح سوالات بہت زوروں پر اُٹھائے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان سوالات پر کا جواب دیا جائے یا ان سوالات کی صحت ہی پر غیر کیا جائے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ سوال کرنے والا کسی ذہن سے سوال کر رہا ہے۔ سوال کرنے والے یہ تاثر دیتے ہیں گویا وہ دین کو تو مانتے ہیں لیکن باوجود کوشش کے دین کے ان احکامات کی حکمت سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ لیکن بحث کو ذرا سا آگے بڑھائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ بندہ صاف صاف خدا کا انکاری ہے یا اسلام کو خدا کے طرف سے نازل کردہ دین کے طور پر نہیں مانتا۔ بالفاظ دیگر بندہ مسلم ہی نہیں ہے!!
اگر کوئی یہ کہے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دین کے کسی حکم کی حکمت سمجھنے کے لئے سوال پوچھنےوالے کا کیا عقیدہ ہے تو یہ بات غلط ہے۔نفع اور نقصان کے احساس کا تعلق ہماری عقل کے ساتھ ساتھ ہمارے عقیدے سے بھی ہے۔ ملحدوں کے نزدیک نفع اور نقصان کے احساس میں لذت اور سرمایہ بالکل ہی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آخرت کا فائدہ،آخرت کے لئے دنیاکی لذتوں کو قربان کرنا نہ ان کی سمجھ میں آئے گا اور نہ وہ اس کو بطور فائدہ کے تسلیم کریں گے۔
حج اور قربانی کے فوائد کی تعبیرآخرت کے اجر اور خدا کے رضاکے علاوہ نفسیاتی اور عمرانیاتی لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے۔ عبادات کے مناسک انسانی فکرکی یکسوئی اور کسی عقیدے کو انسان کے ذہن میں راسخ کرنے کے لئے زبردست مؤثر ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں۔ اس کے لئے علم نفسیات سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مذاہب کی تاریخ کی گواہی بہت کافی ہے۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قربانی اور حج جیسا عمل کیسے اس کی روحانی اور فکری کیفیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مشرق تا مغرب تک پھیلی ہوئی امت کی شیرازہ بندی میں حج ، قربانی اور رمضان نے جوکردار ادا کیا ہے اس کے لئے ہمیں سوشیالوجی کا کوئی چیپٹر پڑھنے ضرورت نہیں ہے۔ جس کو بھی تاریخ اور حال کا ذرا سا بھی ادراک ہے اس کو اچھی طرح سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو اس گلوب میں پھیلی ہوئی مختلف زبان رنگ اور شکل صورت والی امت کو ایک امت بنا کر رکھا ہوا ہے۔
لیکن انہیں کیسا سمجھایا جائے جو اول تو اُمت نام کے کسی وجود کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ اور زبانی نہ سہی دل سے مان بھی رہے ہیں تو پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اُمت کے اندر جتنا زیادہ ہوسکےاتنا زیادہ انتشار پھیلا یا جائے۔
قصہ مختصر یہ کہ حج اور قربانی ہم اللہ کی رضا اور اس کے انعامات حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں ۔ یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔تو پہلے بتایا جائے کہ پوچھنا والا اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں۔
مزید یہ کہ ان عبادات کے ذریعے ہمارے اندر ہمارا ایمان مزید راسخ ہوتا ہے اور یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جس کے نزدیک ایمان کا راسخ ہونا اور اس پر ثابت قدمی کوئی معانی رکھتے ہیں۔
پھر یہ کہ ان عبادات کے ذریعہ مشرق تا مغرب پوری امت کو اللہ تعالی جوڑ رکھا ہے جوکہ اس اُمت مسلمہ کے سیاسی زوال کے بدترین دور کے باوجود اس اُمت کا ایک شاندار وجود دنیا کے سامنے لے آتا ہے۔ یہ بات انہیں کے لئے بامعنی ہے جن کے نزدیک "اُمّت" ، اس کی اجتماعیت اور اس کی اجتماعی شان قابل فخر بات ہو۔
اور ویسے بھی حج اور قربانی کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ملاحدہ اس امت کی شان و شوکت اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر اپنے دل میں خوب کڑھتے ہیں۔
الغرض
وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ سے انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں کہہ دو تم اپنے غصہ میں مرو الله کو دلوں کی باتیں خوب معلوم ہیں۔ سورہ آل عمران۔

shaitan ko pathar marna !




ملحد کا اعتراض:
 اگر پتھر کے مورتی کی پوجا پاٹ کرنا بے وقوفی ہے تو اسی پتھر کے بنے شیطان کو کنکریاں مارنا کہاں کی دانشمندی ہے.

جواب:
پتھر کی مورتی کی پوجا کرنے میں دو احتمالات ہیں جس کی وجہ سے یہ غلط ہے۔


۱۔ کوئی پتھر کو خدا سمجھ کو اس کی پوجا کرتا ہے۔ اس کی شناعت تو واضح ہے

۲۔ کوئی خدا کو پوجنے کے لئے پتھر کو بطور علامت استعمال کرتا ہے۔ رب العالمین جو کہ پاکیزگی اور تقدس کے کمال پر ہے اس کے لئے انسانوں کے تراشے ہوئے پتھر کو علامت بنانا اس کی توہین ہے۔ 

اب اسی بات کو مسلمانوں کے   نکتہ نظر سے دیکھیں۔

۱۔ کوئی مسلمان پتھر کو شیطان سمجھ کر مارتا ہے۔ ایسا کوئی مسلمان نہیں کرتا۔ اس لئے یہ بات سرے سے بے معنی ہوئی
۲۔ کوئی مسلمان پتھرکو علامتی طور پر استعمال کر کے شیطان سے اپنی نفرت اور لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔ اگر اس میں شیطان کی توہین ہے تو پھر ہمیں اس میں کوئی عار نہیں ہے۔ اور اگر اس سے ملحدوں کو شدید قسم کی ذہنی پریشانی کا سامنا ہے تو پھر اس میں خیر ہی خیر ہے۔ 

خدائے رب العالمین اچھائی اور تقدیس کی علامت ہے۔ اور اس سے ہمارا تعلق ستائش، محبت، عبادت، خشیت اور حد درجہ احترام کا ہے۔ اس لئے رب العالمین کے لئے ایک پتھر کی علامت بنانا جو کہ مخلوق ہو اور ایک مخلوق کی شکل میں تراشی گئی ہو نہ صرف رب العالمین کی تقصیر و ناقدری ہے بلکہ انسان کے اندر پائے جائے والے جذبہ عبادت و محبت کی بھی توہین ہے۔

شیطان جو کہ شر، نفس پرستی اور تکبر کی علامت ہے اگر اس کے لئے پتھر کو علامت قرار دے کر اس کو دھتکارنے کے لئے سنگ باری کی جائے تو اس میں وہ اعتراض نہیں ہوسکتا جو کہ پتھر کو رب العالمین کی علامت بنانے میں ہوسکتا ہے۔

ملحدوں کے نزدیک اگر عبادت اور دھتکار ایک ہی قسم کا جذبہ ہے تو یہ جذبہ انہیں ہی مبارک ہو۔ ہم مسلمان محبت، تقدس اور ستائش کے لوازمات کچھ اور رکھتے ہیں اور نفرت کے لوازمات کچھ اور۔

یہ ملحد جس طرح نفرت اور محبت کے جذبے کو ملاتے ہیں اس سے ملحدوں کی نفسیات سمجھنے میں اچھی خاصی مدد ملتی ہے۔ اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ ملحد ہوتے کیوں ہیں۔ 
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان پر پڑنے والے پتھر براہ راست ملحدوں کے سر پر پڑتے ہیں۔

EID UL AZHA AUR JANDARO SE DOSTI KA NATAK





''ہر سال لاکھوں بے زبان جانوروں کی گردنوں پر مذھب کے نام کی چھریاں چلا کر عقائد کے فریضے ادا کرنے سے تو کہیں بہتر اس رقم سے فاقوں سے مرتی لب دم 
انسانیت کا پیٹ بھرنا ھے''۔

درج بالا جملہ جدیدیت ذدہ مذھب دشمن ذہنیت کی عکاسی ھے جسے مذھب کا اظہار کرنے والی ہر رسم سے چڑ ھے۔ 

کیا یہ اعتراض ایک رات میں دس ہزار کے پیزے کھا کر سونے والوں کو سوٹ کرتا ہے.؟؟

وہ جنہیں زکوۃ صدقات دینا تو دور کبھی اک روپیہ کسی غریب یتیم کو دینے کو توفیق نہیں ہوئی.۔۔
اندازہ لگائیے عید پر جانوروں کی قربانی کے غم میں وہ ہلکان ہوئے جارہے ہیں جو سال بهر چھوٹے بڑے پرندے، نباتات اور مرغ و مچھلی کو ایک ڈکار میں ہضم کرجاتے ہیں ۔۔۔

یہ جانوروں کی سواری بهی بڑے شوق سے کرتے ہیں..
جانوروں کی کھال سے بنے جوتے جیکٹس پہنتے ہوئے بهی انہیں زرا بھی رحم نہیں آتا بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔۔۔!!
جانورں کی چربی سے چراغ جلانے پر بهی ان کے سینے میں درد نہیں اٹھتا !!
جانوروں کے بال اور جسمانی اعضاء اور ہڈی وغیرہ سے بنائے جانے والے مختلف پراڈکٹس کے استعمال کا بھی شوق رکھتے ہیں ۔۔۔
جانوروں کے بھوکے پیاسے مرجانے تک ان کی جیبوں سے ایک پھوٹی کوڑی باہر نہیں نکلتی ۔!!
اعتراض ہے تو قربانی عید پر جانوروں کے ذبح ہونے پر..

حد ہے منافقت کی

سارا سال گائے / مرغی کے گوشت کے برگر ، چکن مٹن کڑائیاں، روسٹ مرغے، سالم بکروں کی سجیاں، بروسٹ، چرغے ڈکار جانے والوں کو قربانی عید پر جانوروں پر رحم آنا شروع ہوجاتا ہے اور غریبوں کے لیے مرے جاتے ہیں ۔۔۔

حالانکہ قربانی عید ایک غریب پرور تہوار ہی ہے ۔۔

قربانی کے گوشت کا اک بڑا حصہ انہی غریبوں کو ملتا ہے جنہیں سارا گوشت نصیب نہیں ہوتا .
وہ بهی ایک غریب ہی ہے جو سارا سال بکریاں اس امید پر چراتا ہے کہ عید پر بیچ کر اپنے سال کے خرچے نکالے گا، بچیوں كى شادى كرے گا.۔۔
اسی طرح قصائی بھی کسی وزیر مشیر کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے جو اپنے سال بھر کے قرضے اسی قربانی پر رکھے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ۔
وہ بھی غریبوں کے بچے ہی ہیں ،مدارس والے جانوروں کی کھالیں بیچ کر جن کی رہائش پڑھائی کے خرچے پورے کرتے ہیں،۔۔۔
یہ کھالیں بیچ کر مفت علاج کی سہولت دینے والی ہسپتالوں میں بھی علاج انہی غریبوں کا ہوتا ہے ۔۔۔
اسی طرح ٹرانسپورٹر جو ان مال مویشیوں کو ادھر سے ادھر منڈیوں میں لاتے ہیں،ٹھیلے والے ،ریڑھے والے ،رکشہ والے یہ سارے بهی لوئر مڈل سے تعلق رکھتے ہیں جو اس معاشی حرکت سے فائدہ اٹھاتے ہیں

فرض کرییے ان سیکولروں کے کہنے پر قربانی پر پابندی لگا دی جاتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔

اس عمل سے سب سے ذیادہ نقصان کس کو ہوگا۔۔۔؟؟

غور کرییے ان سیکولروں کے یہ پٹن تماشے غریب دوستی میں ہیں یا غریب دشمنی میں ۔ ۔ ۔؟؟

گو کہ ہم عبادات کے معاشی فوائد دیکھنے کا قائل نہیں کہ یہ عبادت کی روح ہی ختم کردیتی ہے مگر منكرين حديث , ومنكرين قربانى اور مذہب بيزار دہريہ مخالف ذہنیت کی تسلی کیلئے چند گذارشات پیش خدمت ہیں۔

اگر قربانی کی رسم کو خالصتا معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس پر اعتراض صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس نے علم معاشیات کبھی نہ پڑھی ہو۔ مثلا

(1)
اس کے نتیجے میں آپ کے ملک میں فارمنگ (farming) اور کیٹل انڈسٹری (cattle industry) نمو حاصل کرتی ہے جس سے بالعموم چھوٹا کسان یا غریب طبقہ ہی منسلک ہوتا ہے اور عید قربان پر اسے اپنی محنت کا اچھا مول مل جاتا ہے جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا یوں یہ رسم تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ہے

(2)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام رقم ویسے ہی غریبوں کو دے دی جائے وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں بلکہ غریب طبقے کیلئے معاشی ایکٹیویٹی (activity) کا پہیہ چلانا ہوتا ہے اور قربانی کا عمل اس کا بہترین ذریعہ ہے

، (3) پھر ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانٹا جاتا ہے اور معاشرے کا وہ طبقہ بھی گوشت کھاتا ہے جو پورا سال صرف اس کا خواب ہی دیکھتا ہے

(4)
پھر ان جانوروں سے جو کھال حاصل ہوتی ہے اس سے لیدر پراڈکٹس (leather products) بنتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے

، (5) پھر ذرائع نقل و حمل کے ذرائع سے منسلک لوگ بھی ان دنوں کے دوران جانوروں کی ترسیل کے کاروبار کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ الغرض عید قربان چند دنوں کے دوران اربوں روپے کی خطیرمگربے کار سیونگ (saving) کو سیال مادے (liquid) میں تبدیل کرکے معاشی پہیہ تیز کرنے کا باعث بنتی ہے۔
جو لوگ علم معآشیات میں کینز (Keynes) کے ملٹی پلائیر (multiplier) کے تصور سے واقف ہیں کم از کم وہ تو عید قربان پر معاشی نقطہ نگاہ سے لب کشائی کی جرات نہیں کرسکتے

اس جدید ذہن کی حالت یہ ہے کہ اسے غریبوں کا خیال صرف عید قربان پر خرچ ہونے والی رقم کے وقت ہی آتا ہے جو کہ ہر لحاظ سے غریب دوست رسم ہے۔ البتہ اسے ان کھربوں روپے کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو ہر روز امیر لوگ پیزوں اور برگروں پر اڑا دیتے ہیں

، ان کھربوں ڈالرز کے ضیاع پر یہ کبھی انگلی نہیں اٹھاتے جو یورپ اور امریکہ میں پیٹس (pets) کے کھلونے بنانے میں خرچ ہوتے ہیں

، ان کھربوں ڈالر کے ضیاع پر کسی کو تکلیف نہیں ہوتی جو ہر سال کاسمیٹکس انڈسٹری (cosmetics industry) میں جھونک دئیے جاتے ہیں اور جن کا مقصد اس کے سواء اور کچھ نہیں کہ میں زیادہ طویل دنوں تک جوان نظر آؤں۔

الغرض آپ اپنے اردگرد غور کیجیے کہ ٹریلین ڈالرز کے ان بیش قیمت ذرائع کے بے دریغ ضیاع پر تو یہ ملحد کبھی اعتراض نہیں کریں گے جو اپنی نوعیت میں غریب کے جذبات کچل دینے والے اخراجات ہیں مگر عید قربان کے موقع پر یہ غریب کے کچھ ایسے حمایتی بن جاتے ہیں گویا ان سے بڑا غریب پرور آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ غریب پروری نہیں بلکہ مذہب دشمنی ہے جس کیلیے یہ ہر موقع کے بےموقع استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے
استفادہ تحریر زاہد مغل