قرآن پر اسلام
دشمنوں کے اعتراضات کا تحقیقی جوابات
یہ اعتراضات نیٹ پر مختلف زبانوں میں گوگل کے ذریعہ سے پھیلائے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)اعتراض):
قرآن
میں وَالْجَآن
خَلَقْنٰہُ مِنْ نَارِ السَّمُوْمِ میں ہ ضمیر راجع ہے جمع کی طرف جبکہ جان
جمع ہے تو اس کے مطابق ھم ضمیر ہونی چاہئے تھی؟۔
)جواب):عزیز م یہاں جان جمع نہیں بلکہ جنس یا اسم جمع ہے جس کیلئے
واحد کی ضمیر آتی ہے جیساکہ قرآن میں ہے اولا یذکر الانسان انا خلقنہ من قبل و لم
یک شیاء (سورہ مریم 67) ۔
)دوسرا جواب ):یہ ہے کہ یہاں جان سے مراد جنوں کا باوا آدم ہے اور ظاہر ہے کہ وہ واحدہے۔
)دوسرا جواب ):یہ ہے کہ یہاں جان سے مراد جنوں کا باوا آدم ہے اور ظاہر ہے کہ وہ واحدہے۔
اعتراض
:سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّھَا الثَّقَلاَنِ یہاں الثقلان تثنیہ ہے مگر اس کیلئے ضمیر لکم آئی ہے حالانکہ اس کی جگہ لکما آنا چاہئے تھا۔
جواب : یہاں ثقلان سے مراد جنس سے جن و انس فردمراد نہیں ،بلکہ دونوں جماعتیں اور ان کے افراد مرادہیں اور وہ جمع ہیں جیساکہ دیگر مقامات پر فرمایا فَاِذَا ھُمْ فَرِیْقَانِ یَخْتَصِمُوْنَ نیز فرمایا ھَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ یہاں خصمان اگرچہ لفظا تثنیہ ہے مگر معنی جمع ہے کیونکہ اس سے ہر دو فریق فریق مسلم و فریق کافر جس کے تحت کئی افراد ہیں مراد ہے ۔نیز تثنیہ واحد کے بجائے جمع کے زیادہ قریب ہے دو افراد کی اکھٹے نماز کو جماعت کہا جاتا ہے انفرادی نما ز نہیں اس لئے جمع کی ضمیر لائے دیکھو قرآن میں ہے اِنْ تَتُوْباَ اِلیَ اللّٰہِ فَقَدْ ضَغَتْ قُلُوْبُکُمَا ذکر دو خواتین کا ہے مگر ان کے دل کیلئے قلوب جمع لائے ہیں۔
اعتراض
:وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّ جَ الجاہلیۃ یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطہیرا یہاں خطاب امہات المومنین سے ہے اس لئے عنکم مذکر کی ضمیر جمع کے بجائے عنکن آنی چاہئے تھی۔
جواب :یہاں اہل کا لفظ دراصل ذکر کیا ہے جو عزیز و اقارب کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے چونکہ بظاہر اہل کا لفظ جمع مذکر ہے اسلئے ضمیر میں بھی اسی کی رعایت رکھی گئی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے وََ ھلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی اِذْ رَأَی نَاراً فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْا اِنِّیْ ٰانَسْتُ نَاراً لَّعَلِّیْ ٰاتِیْکُمْ مِنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدیً یہا ں اہل سے مراد حضرت موسی علیہ السلام کی بیوی ہیں اس کے باوجود اہل کے ظاہر کی رعایت کرتے ہوئے صیغہ جمع مذکر کے لائے گئے ہیں۔قَالُوْ ا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَت اللہ و برکاتہ علیکم اہل البیت یہاں پر بھی خطاب حضرت زکریا علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کو ہے مگر ضمیر اہل بیت کی رعایت کرتے ہوئے جمع مذکر کی لائے ہیں۔
اعتراض
: جناب معطوف ،معطوف علیہ بیک وقت پانچ چیزوں میں یکسانیت ہونا ضروری ہے اس میں ایک افراد ،تثنیہ ،جمع بھی ہے اب قرآن میں ہے وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَأْسِ ۔یہاں الصابرین کا عطف الموفون پر ہے جوکہ مرفوع ہے تو الصابرین کو بھی الصابرون مرفوع ہونا چاہئے تھا جبکہ یہ منصوب ہے ؟۔
(جواب):یہاں الصابرین، الموفون پر معطوف نہیں بلکہ یہ امدح فعل محذوف کا مفعول بہ ہے ای اَمْدَحُ الصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآء۔
اعتراض
:قرآن میں ہے اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَاَّلذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِءُوْنَ وَالنَّصَارٰی مَنْ آمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحاً اس میں الصابؤن کا عطف اِنَّ حرف از حروف مشبہ بالفعل پر ہورہا ہے لہذا یہ اس کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب ہونا چاہئے تھا مگر یہ تو حالت رفعی میں ہے؟۔
جواب : اگر قرآن میں نحوی غلطی ہوتی تو دوسرے مقام پر بھی ہوتی جیسا کہ یہی مضمون ایک اور مقام پر یوں بیان ہوا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِءِیْنَ وَالنَّصَارٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْن اَشْرَکُوْا انَّ اللہ یفصل بینھم یوم القیامۃ یہاں یہ منصوب ہے ۔دراصل جس آیت پر آپ کو اشکال ہوا وہاں الصابئین کا عطف اِنَّ پر نہیں ہورہا بلکہ دراصل یہ دو جملوں کا مجموعہ ہے پہلا جملہ ان الذین آمنوا ہے اور مفلحون محذوف اس کی خبر ہے ۔ آگے والذین ھادوا میں واو عاطفہ نہیں بلکہ استینافیہ ہے اور یہ مبتداء ہے اور آگے واو عاطفہ ہے اورالصابؤن کا عطف ھادوا پر ہورہا ہے۔ اور آگے مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ الآیۃ اس کی خبر ہے اور تقدیری عبارت یوں ہوگی
وَالْیَھُوْدُ وَالصَّابِءُوْنَ وَالنَّصٰارَی الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ مِنْھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔
اعتراض
:قرآ ن میں ہے مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْنَ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَتْ مَا حَوْلَہُ ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ وَ تَرَکُھُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبْصِرُوْنَ
یہاں بنورھم کی ضمیر کا اعادہ استوقد پر ہورہا ہے اور یہ واحد کا صیغہ ہے ضمیر بھی واحد توبِنُوْرِھِمْ کی جگہ بِنُوْرِہٖ ہونا چاہئے تھا۔واحد پر جمع کی ضمیر کا اعادہ کیسے ممکن ہے ؟
جواب :جہالت ہے دراصل یہاں’’ تشبیہ تمثیلیہ ‘‘کا بیان ہے جس میں ایک حالت کو دوسری حالت سے تشبیہ دی جاتی ہے تو یہاں بھی منافقین کی حالت کی تشبیہ اس شخص کے ساتھ دی جارہی ہے جو آگ جلائے اور اللہ اس کو بجھادے تو وہ اس آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے یہاں بنورھم میں ھم ضمیر جمع مشبہ کی حالت کی رعایت رکھتے ہوئے لائے گئی ہے اور وہ منافقین ہیں نہ کہ مشبہ بہ جوکہ آگ جلانے والا ہے کیونکہ تشبیہ تمثیلیہ میں مقصود مشبہ ہوتا ہے مشبہ بہ نہیں ہوتا۔بنورھم کی ضمیر کا اعادہ مثلھمپرہے پس ا ب معنی یہ ہواکہ ان منافقین کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو آگ جلائے اور بجھ جائے کوئی انتفاء حاصل نہ کرسکے اسی طرح ان منافقین کانور بھی اللہ نے چھین لیا ہے اب یہ نور ایمان سے استفادہ حاصل نہیں کرسکتے۔
مثل المنافقین فی عدم استفادتھم من الایمان کمثل رجل استوقد نارا فلما اضائت ما حولہ ذھب اللہ بنارہ فلم یستفد منھا وکذالک المنافقون ذھب اللہ بنورھم فلم یستفیدوا من الایمان۔
اعتراض
:سورہ بقرہ آیت 36 میں ہےِ انَّ اللّٰہَ لاَ یَسْتَحْیِی اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا اس میں فما فوقھا آیا ہے حالانکہ بلاغت کا تقاضہ تھا کہ یوں کہا جائے بعوضۃ فما اصغرھایعنی مچھر اور اس سے بھی چھوٹی چیز۔مچھر کے بعد تصغیر کے معنی والا صیغہ ذکر کرنا چاہئے تھا نہ کہ تکبیر والے معنی کا ۔
جواب :دراصل اہل عرب مچھر کو ذلت و حقارت کے بیان کیلئے ذکر کرتے ہیں توگویا جثہ یعنی جسم مراد نہیں بلکہ معنی مراد ہے یعنی اس کی حقارت تو یہاں بھی معنی کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اللہ مچھر کی مثال بیان کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتا تو حقارت و ذلالت میں اس سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہو تو اس کی مثال بیان کرتے ہوئے وہ کیوں شرمائے؟۔
دوسرا معنی یہ کہ یہاں جسم ہی مراد لو تو اس صورت میں یہ معنی ہوگا کہ اللہ نے مکڑی و مکھی کی مثالیں قرآن میں دیں تو اہل یہود اس پر معترض ہوئے کہ ان حقیر چیزوں کی مثالیں کیوں ذکر کی؟ تو اللہ نے بطور تعریض زجر و توبیخ کے کہا کہ اللہ تو مچھر کی مثال بیان کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتا تو اگر قرآن میں اس سے فوقھا یعنی اس سے بڑھ کر مکڑی و مکھی کی مثال بیان کردی تو کیوں اس پر شرمائے؟
قرآن کی بلاغت پر معترض اس جاہل کو اتنا بھی علم نہیں کہ ’’فوق‘‘از قبیل اضداد نہیں بلکہ ’’علو،عدد،صغر،کبر، قہر ، غلبہ‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے علماء نے اس کے مختلف ۶معنی بیان کئے ہیں جو سب قرآن میں مستعمل ہیں انظر بصائر ذوی التمیز فی لطائف الکتاب ،ج4،ص200۔
کلام عرب میں النملۃ فوق النملۃ اور الحمار فوق الحمار کی امثلہ موجود ہیں جس سے مراد اصغر من النملۃ والحمار ہے ۔علامہ سیوطی ؒ نے تو المزھر فی علوم اللغۃ میں لکھا ہے کہ فوق ’’دون‘‘کے معنی میں بھی مستعمل ہے تو اعتراض ہی ختم۔جیسے القشیب نئے اور پرانے اور زوج میاں اور بیوی دونوں کیلئے مستعمل ہے اسی طرح فوق بھی اوپر نیچے چھوٹے بڑے کیلئے مستعمل ہے ۔مختار الصحاح میں فوق کو’’دون‘‘ کے معنی میں لیکر مثال دی گئی فلان صغیر ھو فوق ذالک ای اصغر ذالک من ذالک ۔جس طرح فوق دون صغر کے معنی میں مستعمل ہے دون بھی فوق کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے قولھم ان فلانا لشریف فیجیب الاخر فیقول و دون ذالک ای فوق ذالک (تاج العروس)۔
قرآن پر نحوی اور معنوی اعتراضات کرنے والے اس جاہل کی اپنی بلاغت کا یہ حال ہے کہ فما فوقھا کی جگہ فما اصغرھا کہہ کر ہماری ٹھیٹ اردو میں ’’بلاغت کی ماں بہن ایک کررہا ہے ‘‘ حالانکہ اگر اس کی جگہ کوئی لفظ آنا بھی تھا تو ما اصغرھا نہیں بلکہ ما دونھا ذکر کیا جاتا ۔