Friday, October 14, 2016

aitraaz : shahdat usman r.a, jang jamal, jang siffeen aur shahdat husain r.a


برستے فتنے


 اعتراض  

المیہ اسلام
ابو لولو حضرت مغیرہ بن شعبہ کا ایک ایرانی غلام تھا جو لوہار اور بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ مغیرہ اس سے دو روپے یومیہ ٹیکس لیتے تھے۔ ابو لولو نے حضرت عمر سے شکایت کی کہ اس قدر محنت کرنے کے باوجود وہ جو کماتا ہے وہ مغیرہ ٹیکس کی شکل میں لے لیتے ہیں اور یوں اسے گزارہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حضرت عمر نے ایک عجمی غلام کے مقابلے میں صحابیِ رسول کے حق میں فیصلہ دیا۔ ابو لولو کو غصہ آیا اور ایک صبح وہ خنجر لے کر مسجد میں داخل ہو گیا اور حضرت عمرپر پے در پے خنجر کے کئی وار کئے ۔ لوگوں نے تعاقب کیا تو ابو لولو نے اسی خنجر سے خود کشی کر لی۔ حضرت عمر قاتلانہ حملے کے بعد بھی تین چار روز زندہ رہے۔
موت قریب دیکھ کر حضرت عمر نے نیا خلیفہ چننے کیلئے چھ صحابیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی۔ حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت زبیر بن عوام، حضرت سعد بن ابو وقاص، حضرت علی بن ابوطالب۔ طلحہ بن عبیداللہ اس وقت مدینہ میں موجود نہیں تھے۔ سب لوگوں کو حکم دیا گیا کہ حضرت عائشہ بنت ابوبکر کے ہاں جائیں اور کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لیں۔ سب حضرات عائشہ کے ایک کمرے میں جا بیٹھے۔ اور انتخابی گفتگو ہونے لگی۔ ایک شور کا سا سماں تھا۔ ہر کوئی اپنی فضیلت اور اہمیت پر زور دے رہا تھا۔ حضرت عمر تک اس نفاق کی خبر پہنچی تو انہوں نے حکم دیا کہ انتخاب کو میری موت تک موقوف کر دیا جائے، اس کے بعد سب لوگ اکٹھے ہوں۔ صحابی ابو طلحہ کو حکم دیا کہ اپنے ساتھ پچاس مسلح انصاری لو اور اس کمیٹی کے ارکان کو مجبور کرو کہ تین دن کے اندر اندر نیا خلیفہ چن لیں، اگر طلحہ بن عبیداللہ اس دوران لوٹ آئیں تو انہیں بھی شامل کر لو۔ ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اگر ان موجود پانچوں میں چار افراد ایک طرف ہوں اور ایک ان سے اختلاف کرے تو اس کی گردن مار دو۔ اگر تین ایک طرف ہوں اور دو اختلاف کر رہے ہوں تو ان دونوں کو قتل کر دو، اگر طلحہ بن عبیداللہ وقت کے اندر اندر آ جائے اور تین ووٹ ایک طرف ہون اور تین دوسری طرف تو عبدالرحمٰن بن عوف کو حق ہو گا کہ وہ کسی کو بھی خلیفہ مقرر کر دے۔ ور اگر ان تین دونوں کے اندر یہ لوگ کسی ایک فیصلے پر متفق نہ ہو سکیں تو سب کو قتل کر دو۔
یہ اعلان سن کر علی بن ابو طالب اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے پاس گئے اور کہا، چچا خلافت اس بار بھی ہمیں ملنے والی نہیں ہے کیونکہ سعد بن ابو وقاص عبدالرحمٰن بن عوف کے چچا زاد بھائی ہیں، اور عبدالرحمٰن عثمان کے قرابت دار۔ لہذا یہ دونوں اپنا ووٹ عثمان کو ہی دیں گے۔ اگر مجھے طلحہ بن عبیداللہ اور زبیر بن عوام کی حمایت مل بھی جائے تب بھی حتمی فیصلہ عبدالرحمٰن بن عوف نے ہی کرنا ہے۔ اگر عمر زندہ رہے تو میں ان سے کہوں گا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ کتنی زیادتی کی ہے اور اگر مر گئے تو آثار نظر آ رہے ہیں کہ عثمان کو ہی خلافت ملے گی۔ بخدا، اگر ایسا ہوا تو میں ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دوں گا۔
حضرت عمر کی وفات کے بعد ابوطلحہ اور پچاس مسلح انصاریوں کے نگرانی میں کمیٹی دوبارہ بیٹھی لیکن بات سلجھ نہ پائی۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے اپنا نام خلافت کے امیدواروں سے واپس لے لیا، وہ ایک رئیس آدمی تھے، اچھا کھانے اور پہننے کا شوق تھا۔ ان کیلئے نہ ہی خلافت میں کوئی کشش تھی اور نہ ہی وہ عمر بن خطاب جیسی خشک اور روکھی زندگی گزارنا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک خلاف تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب کوئی عمر بن خطاب جیسی زندگی گزارے وگرنہ سب اصحاب ان کا جینا مشکل کر دیں گے۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں خلافت کی امیدواری سے نام واپس لیتا ہوں۔ اگر آپ راضی ہوں تو مجھے امت مسلمہ کی بھلائی کیلئے خلیفہ منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ حضرت عثمان تو ایک دم سے راضی ہو گئے لیکن حضرت علی نے کہا کہ وہ سوچ کر بتائیں گے۔ لیکن انہیں بھی بالاخر منا لیا گیا۔
عبدالرحمٰن بن عوف نے سعد بن ابو وقاص کو بھی دستبرداری پر راضی کر لیا۔ وہ ان کے چچا زاد ہونے کے علاوہ سمدھی بھی تھے۔ زبیر بن عوام یہ دیکھ کر دب گئے کہ عبدارحمٰن بن عوف اور سعد بن ابو وقاص کی تائید سے محروم ہو کر اب ان کے خلیفہ بننے کے مواقع ختم ہو گئے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان نے حضرت زبیر بن عوام کی تالیف قلب کیلئے انہیں تین لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا۔ لہذا وہ بھی راست سے ہٹ گئے۔اب میدان میں صرف حضرت عثمان اور حضرت علی رہ گئے تھے۔
عبدالرحمٰن بن عوف باقی دنوں میں دوسرے معزز اصحاب رسول اور خاندان قریش سے بھی مشورہ کرتے رہے۔ حضرت علی کے حق میں صرف بنو ہاشم کے لوگ تھے، اہل مکہ کو حضرت علی پسند نہ تھے کیونکہ انہوں نے مختلف غزوات میں اہل مکہ کے کئی لوگوں کو قتل کیا تھا۔ کچھ روایتوں کے مطابق حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہونے والے غزوہ بدر میں 20 لوگ تھے جن میں اکثریت کا تعلق حضرت عثمان کے خاندانن بنو امیہ سے تھا، غزوہ احد میں حضرت علی نے 4 قریشیوں کو قتل کیا۔ حضرت علی کے اس ماضی کی وجہ سے قریش کے کئی بڑے خاندان جن کے بزرگوں کو حضرت علی نے قتل کیا تھا وہ ان سے ناراض تھے۔ حضرت علی کے مقابلے میں حضرت عثمان ایک شریف النفس اور صلح جو قسم کے آدمی تھے۔ وہ غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں رسول کریم کے ساتھ تھے۔ لیکن ان کے دامن پر کسی بھی انسانی خون کے چھینٹے نہ تھے۔ حضرت عثمان مرنے اور مارنے کی بجائے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ غزوہ احد سے تو ایسے سرپٹ بھاگے کہ تین دن بعد مدینہ واپس آئے۔
تیسرے دن پھر سب لوگ اکٹھے ہوئے جسے دیکھنے کیلئے بہت زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے پانچوں اصحاب سے حلف لیا کہ جو وہ فیصلہ کریں گے اسے تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد دونوں امیدواران سے کہا کہ آپ وعدہ کریں کہ خلیفہ بننے کی صورت میں اپنے خاندان کو لوگوں کو مسلمانوں پر مسلط نہیں کریں گے، نیز آپ رسول اللہ اور شیخین کے نقش قدم پر چلیں گے۔ حضرت علی نے جواب دیا کہ میں کیسے ایسا وعدہ کر سکتا ہوں جو میرے بس سے باہر ہے، رسول اللہ کے نقش قدم پر چلنا کس کے بس کی بات ہے۔ البتہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مجھ سے جو ہو سکا وہ میں کروں گا۔ جب یہی سوال حضرت عثمان سے پوچھا گیا تو انہوں میں عبدلرحمٰن کو اثبات میں جواب دیا۔ یہی سوال تین بار پوچھا گیا اور تینوں بار فریقین نے یہی جواب دیا۔ حضرت عثمان کے واضع اور حتمی جواب دینے اور حضرت علی کے غیر واضع اور غیر حتمی جواب دینے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ حضرت عثمان کو جتوانے کیلئے حضرت سعد بن وقاص نے حضرت علی سے کہا کہ عبدالرحمٰن بن عوف کو حتمی جواب پسند نہیں ہے، اور حضرت عثمان کو بتایا کہ عبدالرحمٰن بن عوف کو حتمی جواب پسند ہے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے حضرت عثمان کو خلیفہ مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ چند دنوں بعد طلحہ بن عبیداللہ واپس مدینہ آئے تو انہوں نے عمران خان کی طرح انتخاب کو ماننے سے انکار کر دیا کہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے، انتخاب دوبارہ کیا جائے۔ لیکن جب انہیں حضرت عمر کے اس فیصلے کی خبر ہوئی کہ متفقہ فیصلہ نہ ماننے والے کو قتل کردیا جائے تو وہ چپ ہو گئے۔ طلحہ حضرت عائشہ کے بہنوئی تھے اس لئے ان کی بہت خواہش تھی کہ طلحہ کو خلافت ملے اور یوں خلافت واپس ان کے خاندان میں واپس آ جائے۔
حضرت عثمان کو جس وقت خلافت ملی اس وقت ان کی عمر 70 سال تھی، ان میں حضرت عمر جیسا دبدبہ نہ تھا، لہذا وہ ہر مسئلے کا حل مطالبات کے سامنے جھک جانے سے کرتے تھے۔ انہوں نے خلافت سنبھالتے ہی خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ مدینہ میں ہر روز اعلان ہوتا کہ جس کسی نے راشن لینا ہو، آ کر لے لے، کسی دن کپڑوں اور جوتوں کیلئے اعلان ہوتے، لوگوں کے وضائف میں اضافہ کر دیا گیا۔ حضرت عمر نے صحابہ پر پابندی لگائی ہوئی تھی کہ وہ مدینہ سے باہر جا کر مقبوضات میں جا کر نہیں بس سکتے۔ کیونکہ ان کے بقول خلافت اسلامیہ کو سب سے بڑا خظرہ تب پیش آئے گا جب یہ معزز صحابہ دوسرے علاقوں میں جا بسیں گے۔ ان کے گرد عقیدتمندوں کا ہجوم اکٹھا ہو گا جس سے ان کے دل میں مرکز کے خلاف بغاوت جذبات ابھریں گے۔ لہذا اگر کسی معزز صحابی نے جنگ پر بھی جانے کی خواہش کی تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ آپ رسول اللہ کے زندگی میں جہاد میں حصہ لے چکے ہیں لہذا اب آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ مدینہ میں رہیں، نہ آپ دنیا دیکھیں اور نہ دنیا آپ کو دیکھے۔ لیکن حضرت عثمان نے صحابہ پر اس پابندی کو ہٹا دیا۔ اور ان کے خلاف سازشوں کا جال بچھنا شروع ہو گیا۔
مسلمانوں میں دھڑا بازی شروع ہو گئی۔ ایک طرف حکومت وقت کے بہی خواہ یعنی بنو امیہ کے لوگ تھے، ایک طرف طلحہ بن عبداللہ اور زبیر بن عوام کے اہل خاندان اور قبیلے تھے۔ وہی حضرت علی بھی بہت ناراض تھے۔ وہ ہمیشہ سے خلافت کے خواہشمند تھے، لہذا حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد بھی وہ مدینہ کے لوگوں سے بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ کی خواہش تھی کہ ان کے بھائی محمد بن ابوبکر کو کوئی اعلیٰ عہدہ دیا جائے، حضرت عثمان نے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ محمد بن ابوبکر کسی کسی جرم میں دھر لئے گئے، ان کی خواہش تھی کہ ان کا مواخذہ نہ ہو لیکن ہوا۔ جس سے حضرت عائشہ بہت ناراض ہوئیں۔
اس دھڑے بازی کے نتیجے میں حضرت عثمان کےہر جائز و ناجائز کام پر تنقید ہوئی جو بالاخر ان کی شہادت پر منتج ہوئی۔ سعد سے کسی نے پوچھا کہ عثمان غنی کے قتل کی ذمہ داری کس پر ہے تو بولے
عثمان غنی ایک ایسی تلوار سے قتل ہوئے جس کو عائشہ نے نیام سے نکالا، طلحہ نے تیز کیا، علی نے زہرپلایا اور زبیر نے ہاتھ کے اشارے سے قتل کر دیا“۔
حضرت عثمان کی شہادت تاریخ اسلام کا شائد سب سے بڑا المیہ ہے، یہی جنگ جمل و جنگ صفین کی وجہ بنی جس سے ہزاروں صحابہ کرام شہید ہوئے اور امت مسلمہ فرقوں میں بٹ گئی، جس کا نقصان آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔





  الجواب  

تحریر : محمّد سلیم

(شہادتِ عثمان رض ۔ جنگِ جمل ۔ جنگِ صفین اور شہادتِ حسین رض مسلمانوں کی تاریخ کے حساس موضوعات ہیں ۔ ایک مسئلہ تو اس پر لکھنے میں یہ ہے کہ علم یا تو بہت مبہم ہے یا اس میں جانبداری کا گمان ہوتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی نے حضرت علی رض کے حق میں لکھا تو حضرت عائشہ رض اور امیر معاویہ رض کر مجرم قرار دے ڈالا ۔ اور جس نے حضرت عائشہ رض کے حق میں لکھا اس نے حضرت علی رض کو قصور وار قرار دیا ۔ پھر ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ لکھنے والے فریقین میں ایک مخصوص گروہ کے علاوہ بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ان جنگوں میں شامل مسلمانوں کے دو گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کے حق میں لکھنے کے باوجود دوسرے گروہ کی تکذیب کے قائل نہیں ۔ اخلاقی اعتبار سے یہ بات درست سہی مگر منطقی اعتبار سے غلط سمجھی جائے گی ۔ اس مضمون میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ ہر فریق کا مثبت نکتۂ نظر اس انداز سے بیان ہو جائے کہ وہ عقلی معیار پر بھی پورا اترے ۔ چونکہ موضوع حساس ہے اور نیت صاف ہے لہٰذا پیشگی اپنے رب کے حضور کسی خطا کی یا گستاخی کی صورت میں توبہ کا طلب گار ہوں ۔)

"نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے بعد تم پر فتنے برستے ایسے دیکھتا ہوں جیسے بارش کے قطرے برستے ہیں ۔
ﷲ کے رسول جب تک دنیا میں موجود ہوتے ہیں شیطان کا کاروبار بند رہتا ہے مگر رسولوں کے فوت ہوتے ہی شیطان نئی توانائیوں کے ساتھ 
  میدانِ عمل میں آتا ہے اور انسانوں کو بھٹکانے کا کام شروع کر دیتا ہے ۔

عبدﷲ بن سبا ایک بنیاد پرست یہودی تھا جس نے حضرت عثمان غنی رض کے دور میں بظاہر کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا اور مسلمانوں کے خلاف ایسی سازشوں کا آغاذ کیا جن کے نتائج امتِ مسلمہ آج تک بھگت رہی ہے ۔
بظاہر وہ حضرت علی رض کے حق میں دلائل دیا کرتا مگر حقیقتاً اسلام دشمنی پہ مشتمل ۔ اس نے اپنی اس سازش کا آغاذ عرب کے مشرقی علاقوں سے کیا جہاں صحابہ کی تعداد نسبتاً کم تھی اور لوگوں میں یہ بات مشہور کرنی شروع کی کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے بعد خلافت اہلِ بیت کا حق تھا جسے معاذﷲ غصب کیا گیا ۔ اس پروپیگنڈے کے لئے اس نے کچھ معروف احادیث کا سہارہ بھی لیا اور کچھ اختراعی دعووں کا ۔ مثلاً بعض دفعہ وہ یہ دعویٰ کرتا کہ مجھے حضرت علی رض کی شبیہہ آسمانوں میں نظر آئی ہے ۔
نظریاتی طور پر اس نے امتِ مسلمہ کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ۔
ایک گروہ تو وہ تھا جو حضرت علی رض کی ویسی ہی فضیلت کا قائل تھا جیسی ابو بکر ۔ عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کی فضیلت کا ۔
مگر ایک دوسرا گروہ جو غیر محسوس طریقے سے زور پکڑتا گیا ان کا ماننا یہ تھا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مسندِ خلافت پہ حق ہے تو وہ یا تو علی رض ہیں یا ان کی آل ۔ کسی ایسے شخص کو جس کا تعلق نبی کے گھرانے سے نہ ہو اسے خلیفہ بننے کا کوئی حق نہیں ۔
اس طبقے نے نبی کے گھرانے کی بھی اپنی خودساختہ تشریح پیش کی جس میں صرف حضرت علی رض اور حضرت فاطمہ الزہرا رض کو ہی اہلِ بیت قرار دیا گیا ۔ امہات المومنین کو بھی اہلِ بیت سے باہر سمجھا گیا ۔
حضرت عثمان غنی رض پر اقربا پروری کا الزام لگانے والوں میں بھی اس گروپ کے لوگ پیش پیش تھے ۔ حالانکہ یہ ایک انتہائی احمقانہ اعتراض تھا ۔ یہ اعتراض حضرت عثمان غنی رض پر اس لئے فٹ نہیں بیٹھتا کہ وہ حکمران بننے سے پہلے بھی اقربا پرور ہی تھے ۔ بلکہ اقارب کیا ان کے در سے کوئی غیر بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا ۔ 
جب قیصرِ روم نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو مدینہ پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مسجدِ نبوی میں صحابہ کا اجلاس طلب کیا اور بات واضح کی کہ اب تک قبائلی لوگوں سے جنگیں کیں جہاں ہتھیاروں کی کمی کے باوجود فتوحات حاصل کی گئیں مگر اب دنیا کے طاقتور ترین ملک سے محاذ آرائی ہے لہٰذا تیاری کے لئے مال چاہئے ۔ یہی وہ وقت تھا جب حضرت ابو بکر رض اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے اور حضرت عمر رض آدھا ۔ مگر یہ کافی نہیں تھا لہٰذا آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو ﷲ کی راہ میں خرچ کرے اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں ؟ حضرت عثمان غنی رض کھڑے ہوئے اور مال سے لدے سو اونٹ عطیہ کرنے کا اعلان کیا ۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان بیٹھ جاؤ تمہیں جنت کی ضمانت دی جاتی ہے ۔ پھر فرمایا اور کوئی ہے ؟ تو دوبارہ عثمان رض کھڑے ہوئے اور مال سے لدے سو بیل عطیہ کئے اور نبی ص نے دوسری بار انہیں جنت کی بشارت دی ۔ اس طرح سات مرتبہ نبی ص نے اعلان فرمایا اور ساتوں بار عثمان رض ہی کھڑے ہوئے اور کچھ نہ کچھ عطیہ کیا ۔ جس پر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اے عثمان ! اگر تم آج کے بعد کوئی نیک عمل نہ بھی کرو تب بھی جنت میں جاؤ گے ۔ مفسرین کے مطابق اس حدیث میں جتنے مال کا اعلان حضرت عثمان رض نے فرمایا اس کی مالیت آج کے حساب سے تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ بنتی ہے ۔
یہ میں نے صرف ایک نشست میں دئے گئے مال کی کیفیت بیان کی ہے وگرنہ اسلام کی غربت کے دور میں جو مدد عثمان رض گاہے بگاہے مختلف مواقعوں پر کرتے رہے اس کو اس پوسٹ میں سمو دینا مشکل ہے ۔
اب ان تمام احسانات کے بعد کسی کا حضرت عثمان رض پر اقربا پروری اور سرکاری مال لٹانے کا الزام لگانا نہ صرف بیہودہ ہے بلکہ احسان فراموشی بھی ہے ۔
ایک الزام ان پر یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اہم عہدے دئے جن میں ان کے قبیلے بنو امیہ کے حضرت امیر معاویہ رض بھی شامل تھے ۔
حضرت امیر معاویہ رض حضرت ابو سفیان رض کے بیٹے تھے اور ان کو حضرت عمر رض نے اپنے دور میں دمشق کا گورنر مقرر فرمایا تھا ۔ حضرت عثمان رض نے اپنے دور میں ان کو مزید چار علاقوں کا گورنر مقرر کر دیا ۔ جن میں حمص, فلسطین, اردن اور لبنان کے علاقے شامل تھے ۔
حضرت عثمان رض کے اس فیصلے پر جہاں عام مسلمانوں کو تحفظات تھے وہاں جلیل القدر صحابہ بھی پیچھے نہ تھے ۔ حضرت عائشہ رض نے حضرت علی رض کو بھیجا کہ وہ اس فیصلے کی بابت حضرت عثمان رض کو باقی مسلمانوں کے تحفظات سے آگاہ کریں ۔
حضرت علی رض اور حضرت عائشہ رض کا خیال یہ تھا کہ اتنے سارے علاقے ایک ہی شخص کی تحویل میں دینا خود خلیفہ کے لئے سود مند نہیں ۔ خصوصی طور پر جب مسلمانوں کی ساری عسکری قوت بھی انہی علاقوں میں پائی جاتی ہو جہاں امیر معاویہ رض گورنر تھے ۔ خدشات یہ بھی تھے کہ معاویہ رض کی گورنری میں جو علاقے تھے وہ مرکز یعنی مدینہ اور مغربی علاقوں کے بیچ میں آتے تھے ۔ یعنی اگر امیر معاویہ رض بغاوت کرتے تو ان کے بعد آنے والے مغربی علاقوں کو مرکز سے کاٹ کر اپنے ساتھ شامل کر سکتے تھے ۔
حضرت علی رض نے یہ تمام باتیں حضرت عثمان غنی کے گوش گزار دیں مگر انہوں نے یہ کہہ کر اطمینان دلوایا کہ امیر معاویہ انتہائی بھروسہ لائق انسان ہیں اور ویسے بھی انہیں گورنر بنانے کا فیصلہ عمر رض کا تھا نہ کہ میرا ۔
صحابہ کرام کے متعلق عمومی طور پر مسلمانوں میں میں بھی یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ شائد وہ مافوق الفطرت لوگ تھے یا کسی اور سیارے کی مخلوق تھے جن میں نہ تو اختلاف ممکن ہے نہ ہی فیصلہ سازی کی غلطی ۔ صحابہ کرام بلاشبہ مسلمانوں کی بہترین جماعت تھی مگر وہ انسان تھے ۔ تقویٰ کے معاملے میں عظیم ترین لوگ تھے مگر جذباتی کیفیات ان کی بھی ویسی ہی تھیں جیسی آج کے کسی مسلمان کی ہو سکتی ہیں ۔
انسان سوچتا کچھ اور ہے مگر ہوتا وہی ہے جو ﷲ کو منظور ہوتا ہے ۔
حضرت علی و عائشہ رض کے یہ خدشات بالکل منطقی تھے کہ امیر معاویہ رض کو اتنے طاقتور علاقوں کا گورنر نہ بنایا جائے مگر حضرت عثمان رض کا بھروسہ بھی امیر معاویہ رض پر غلط نہیں تھا اگر وہ سب کچھ نہ ہوتا جو بعد میں ہوا ۔
حج کے موقعے پر مدینہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد حج کے لئے مکہ چلی جاتی ۔ یہ وہ وقت تھا جس کو حضرت عثمان رض کی شہادت کے لئے چنا گیا ۔ دو ہزار کے قریب بلوائیوں نے اچانک مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان غنی رض کے گھر کو محاصرے میں لے لیا اور معزولی کا مطالبہ کر دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ حضرت عثمان معاملات کو ٹھیک سے نہیں چلا رہے لہٰذا ان کی جگہ حضرت علی رض کو خلیفہ مقرر کیا جائے ۔ حضرت عثمان رض نے یہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ کیا میں تلوار کے زور پہ آیا تھا جو تلوار کے خوف سے چلا جاؤں ؟
حضرت عثمان غنی رض کے پاس اس وقت 700 کے قریب محافظ موجود تھے جو اس فتنے سے لڑنے کے لئے تیار تھے مگر حضرت عثمان رض نے ان کو اس لئے روکے رکھا کہ مدینہ کی حرمت پامال نہ ہو ورنہ آس پاس کے صوبوں سے مزید فوجیں بھی طلب کی جا سکتیں تھیں ۔ یہ بات بھی شائد کسی کے وہم و گمان میں نہ تھی کہ معاملہ حضرت عثمان رض کی شہادت پہ جا کر ختم ہو گا ۔
حضرت عثمان رض کی شہادت کے واقعے میں اور حضرت حسین رض کی شہادت کے واقعے میں بہت زیادہ فرق ہمیں نہیں ملتا ۔ دونوں کام بلوائیوں کے ذریعے کروائے گئے اور دونوں میں کرنے والوں کی نفرت اور بربریت عیاں ہوتی ہے ۔ لوٹ مار خواتین کی بے حرمتی آگ لگانا ۔ غرض کوئی کام ایسا نہیں ملتا جو قتل حسین میں ہوا ہو قتل عثمان میں نہ ہوا ہو ۔ حضرت حسین رض کی شہادت کے واقعے میں ہم اکثر سنتے ہیں کہ کس طرح خواتین کی بے حرمتی کی گئی ۔ مگر شائد پڑھنے والوں کے لئے یہ بات نئی ہو گی کہ قتل عثمان والے واقعے میں امہات المومنین کی بے حرمتی کی گئی اور حضرت عائشہ یہ کہہ کر مدینہ چھوڑ کر مکہ ہجرت کر گئیں کہ کیا اب میں اپنی بھی بے حرمتی کرواؤں ؟ تقریباً پورے مدینہ پر بلوائیوں کا قبضہ تھا اور وہ مدینے کی گلیوں میں دندناتے پھر رہے تھے ۔
اگلا مرحلہ خلافت کے فوری قیام کا تھا جس کے لئے حضرت علی رض کو چنا گیا ۔ اس لئے نہیں کہ یہ بلوائیوں کا مطالبہ تھا بلکہ مسلمانوں کے پاس حضرت عثمان رض کے بعد حضرت علی سے بہتر کوئی اور مقابل تھا ہی نہیں ۔
حضرت علی رض کی خلافت شروع میں ہی کمزوریوں کا شکار ہو گئی جب حضرت امیر معاویہ رض کی طرف سے یہ پیغام آیا کہ ہم اس وقت تک نئے خلیفہ کی اطاعت کا اعلان نہیں کریں گے جب تک حضرت عثمان رض کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی ۔
سوچنے والوں نے بہت سوچ سمجھ کر سازش کے تانے بانے بنے تھے ۔ حضرت امیر معاویہ رض حضرت عثمان غنی کے ہم قبیلہ بھی تھے اور قریبی رشتے دار بھی ۔ لہٰذا ان کے لئے ایک ایسے خلیفہ کو تسلیم کرنا بہت مشکل تھا جس کا مطالبہ خود قاتلینِ عثمان کی طرف سے آیا تھا ۔ بے شک ان سے براہ راست حضرت علی پر الزام لگانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ مگر بلوائیوں کے معاملے میں وہ حضرت علی رض پہ بھی بھروسہ کرنے کو تیار نہ تھے ۔
حضرت علی رض خود بھی قاتلینِ عثمان کے معاملے میں کمزوری دکھانے کے حق میں نہیں تھے مگر اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جس طاقت کی ضرورت تھی وہ امیر معاویہ رض کو ساتھ ملائے بغیر پوری نہ ہوتی تھی ۔ پھر بلوائیوں کا تعلق کسی ایک خاص علاقے سے نہ تھا کہ محض ایک علاقے پر آپریشن ضربِ عضب ٹائپ کا کوئی آپریشن کر کے فتنے کو کچل دیا جاتا ۔ بلکہ یہ مختلف صوبوں کے تھوڑے تھوڑے لوگ تھے ۔ جن سے لڑنے کی صورت میں ایک طویل خانہ جنگی شروع ہو سکتی تھی ۔
پھر یہ مطالبہ محض امیر معاویہ رض کا نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس مطالبے کے حق میں تھی جن میں حضرت عائشہ رض حضرت طلحہ رض اور حضرت زبیر رض بھی شامل تھے ۔
حضرت علی رض کے پاس کوئی ایسی عملی صورت موجود نہیں تھی جس سے قاتلینِ عثمان کے اصل مجرموں کو بے نقاب کیا جا سکتا اور سزا دی جا سکتی ۔ ممکن صورت صرف یہی بچتی تھی کہ امیر معاویہ سے مذاکرات کئے جائیں اور ان کو کسی بھی طرح اطاعت پر آمادہ کیا جائے اس کے بعد قاتلینِ عثمان کی خبر لی جائے ۔ مگر حضرت امیر معاویہ نے سزا سے پہلے کسی بھی قسم کی اطاعت یا مدد سے انکار کر ڈالا ۔
اب آخری حل بس یہی تھا کہ بزور طاقت امیر معاویہ رض کے خلاف محاذ آرائی کی جائے ۔ مگر یہ بھی جانتے تھے کہ یہ ایک بے جوڑ لڑائی تھی جس میں امیر معاویہ رض کا پلڑہ بہت بھاری تھا ۔
لشکر کی کمی کو بالاخر انہی بلوائیوں سے پورا کرنا پڑا جنہوں نے حضرت علی رض کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس نے حضرت عائشہ رض کو بھی حضرت علی رض کے خلاف کر دیا ۔ حضرت عائشہ رض کا پہلا مسئلہ یہ تھا کہ وہ امیر معاویہ رض اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کی طرف سے کئے جانے والے مطالبے کو جائز سمجھتی تھیں ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ امیر معاویہ رض کے خلاف لشکر کشی کے خلاف تھیں اور تیسرا مسئلہ جو جنگِ جمل کی بنیاد بنا وہ یہ کہ جن لوگوں کو انہوں نے مدینہ میں شر پھیلاتے دیکھا ۔ ام المومنین حضرت سودہ رض کی توہین کرتے دیکھا اور ہجرت کی انہی لوگوں کو حضرت علی رض کا ساتھ دیتے بھی دیکھا ۔ لہٰذا جذباتی کیفیت کی تقاضا یہی تھا کہ حضرت علی رض کو امیر معاویہ رض کے خلاف لشکر کشی سے روکا جائے ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے طلحہ و زبیر کے ساتھ مل کر ایک اور لشکر ترتیب دیا جس نے حضرت علی رض کو راستے میں ہی روک لیا ۔ حضرت علی رض جو امیر معاویہ رض کی سرکوبی کرنے نکلے تھے انہیں راستے میں حضرت عائشہ رض کے لشکر سے الجھنا پڑا ۔ صحابہ کرام کی دونوں طرف کمی تھی کیوں کہ زیادہ تو صحابہ نے آپس کی ان لڑائیوں میں شرکت کرنے سے زیادہ غیر جانبدار رہنے کر ترجیح دی ۔ 
یہ لڑائی زیادہ طویل نہ ہو سکی ۔ حضرت عائشہ رض اور ان کے ساتھی شکست سے دوچار ہوئے اور انہیں عزت و احترام سے واپس مدینہ بھجوا دیا گیا ۔
جنگِ سفین میں معاملہ کچھ اور تھا ۔ یہاں حضرت علی رض کا مقابلہ محض ایک جذباتی ٹولے سے نہیں بلکہ مسلمانوں ہی کی ایک تربیت یافتہ فوج سے تھا ۔ تین دن کی لڑائی میں حضرت علی رض اور ان کے ساتھی شکست کے دہانے تک پہنچ گئے ۔ مگر ﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ تیسرے دن کی لڑائی میں امیر معاویہ رض کے لشکر کے ہاتھوں حضرت عمار رض کی شہادت کا واقعہ ہوا ۔ یہ وہ صحابی تھے جن کے بارے میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کی شہادت مسلمانوں کے ایک باغی گروہ کے ہاتھوں سے ہو گی اور یہ حدیث امیر معاویہ رض کے لشکر میں موجود صحابہ اور مسلمانوں کے بھی علم میں تھی ۔ اس شہادت نے امیر معاویہ رض کے لشکر میں موجود مسلمانوں کے دلوں میں وہ سوال کھڑے کر دئے جن کی وضاحت کرنا خود امیر معاویہ رض کے لئے بھی ناممکن تھا ۔ لہٰذا جنگ موقوف کر کے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی طرف لوٹنا پڑا ۔
یہ مذاکرات کسی خاطر خواہ نتیجے تک نہ پہنچ پائے کہ امیر معاویہ رض نے بدستور اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے اور حضرت علی رض کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ مگر فائدہ محض یہ ہوا کہ مسلمانوں کے یہ دو گروہ آپس میں مزید کسی محاذ آرائی سے باز آگئے ۔
ان جنگوں کے بعد امتِ مسلمہ حکمرانی کے اعتبار سے دو گروہوں میں بٹ گئی ۔ ایک طرف حضرت علی رض تھے جن کا مرکز مدینہ تھا اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رض جن کا مرکز شام و دمشق تھے ۔
حضرت علی رض کے بعد مدینہ کی حکمرانی کی باگ ڈور حضرت حسن رض کے سپرد کر دی گئی ۔ حضرت حسن رض کے بارے میں نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا ۔
حضرت حسن رض نے مسندِ خلافت پہ براجمان ہوتے ہی اس کام کے لئے کاوشیں شروع کر دیں ۔ ان کا ماننا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہوتے ہیں لہٰذا اگر امت ایک ہے تو حکمران دو کیسے ہو سکتے ہیں ؟ لہٰذا حضرت امیر معاویہ رض سے مذاکرات کے بعد وہ حضرت امیر معاویہ رض کے حق میں دستبردار ہو گئے اور امیر معاویہ رض بلاشرکت غیرے پوری مسلم امہ کے متفقہ حکمران قرار پائے ۔ طاقت ایک جگہ جمع ہوئی تو فتوحات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں سے دوبارہ جوڑا گیا ۔
حضرت امیر معاویہ رض کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے یزید کو حکمران نامزد کیا گیا ۔ یزید کے دورِ حکمرانی میں سبائی فتنہ جس کو حضرت علی رض اور حضرت امیر معاویہ رض نے تقریباً کچل کر رکھ دیا تھا ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ۔ ان کا مرکز ایک بار پھر کوفہ اور عراق کی سرزمین بنی اور حضرت حسین رض سے خطوط کے ذریعے باقائدہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ یزید کے خلاف اعلانِ بغاوت کریں اور اپنا حق واپس حاصل کریں ۔
حصرت حسین رض کے مدینہ سے کوفہ جانے کی وجوہات میں کئی موقف بیان کئے گئے ہیں ۔
کچھ کے خیال میں حضرت حسین رض خلافت حاصل کرنے کے لئے مدد لینے کی غرض سے کوفہ گئے اور کچھ کے نزدیک ان کا وہاں جانے کا مقصد حالات کا جائزہ لینا اور باغیوں کو ان کے ارادے سے باز رکھنا تھا ۔ کچھ صحابہ نے اس بات پر بھی گواہی دی کہ مدینہ میں موجود صحابہ نے حضرت حسین رض کو کوفہ جانے سے روکنے کی کوشش کی اور ان کو یہاں تک کہا کہ آپ کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں مگر حضرت حسین رض نہ مانے ۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت حسین رض نے یزید کی بیعت لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ مگر حضرت حسن رض کی اتنی بڑی قربانی کے بعد انہی کے چھوٹے بھائی کا یزید کی بیعت لینے سے انکار کرنا اور اسے خلافت سے ہٹانے کے لئے کوشش کرنا انتہائی غیر منطقی معلوم ہوتا ہے ۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی آل کا مقصد اگر خلافت کا حصول ہوتا تو حضرت حسن رض کر امیر معاویہ رض کے حق میں دستبردار ہونے کی ضرورت ہی نہ تھی ۔
اس معاملے میں بہت ساری آراء ہیں مگر جو منطقی لگتی ہے وہ یہی ہے کہ حضرت حسین رض کا مقصد بھی وہی تھا جو حضرت حسن رض کا تھا ۔ یعنی امت کو کسی فتنے میں پڑنے سے بچانا ۔ ممکن ہے حضرت حسین رض کوفہ والوں کے ڈھیر سارے خطوط کی وجہ سے اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہوں کہ یہ لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔ اگر میں وہاں جا کر ان کو سمجھاؤں تو میری بات مان جائیں گے اور بغاوت کے ارادے سے باز آجائیں گے ۔ تبھی اپنے خاندان سمیت سفر کیا ۔ یزید کے پاس حضرت حسین رض کو شہید کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی ۔ جتنا بڑا علاقہ اس کی حکمرانی میں آتا تھا اس کو دیکھتے ہوئے کوفے والوں کی بغاوت ایک دن بھی نہ ٹک سکتی تھی ۔
کچھ مورخوں کے مطابق یزید کو کوفہ میں پکنے والی اس کھچڑی کا علم اس وقت ہو چکا تھا جب حضرت حسین رض سفر میں تھے اور ان کے پہنچنے سے پہلے اس نے ایک لشکر بھیج کر کوفہ والوں کی بازپرسی کی ۔ مگر کوفہ والے کسی بھی قسم کی بغاوت سے صاف مکر گئے اور نہ ہی ان کو یہ خبر دی کہ حضرت حسین رض ان کے بلانے پر کوفہ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں اور پھر یزید کی فوجوں کو مطمئین کر کے واپس بھجوانے کے بعد راستے ہی میں کربلا کے مقام پر حضرت حسین رض کو گھیر لیا گیا اور ظلم کی ایک داستان رقم کی ۔ یہ کام اگر یزیدی فوج کا ہوتا تو خیموں کو آگ لگانے کی ضرورت نہ تھی ۔ بلکہ ہر مال کو مالِ غنیمت سمجھا جاتا مگر آگ لگانے کی داستان سے لگتا ہے کہ وہ خطوط جو حضرت حسین رض کو بھیجے گئے تھے وہ خود کوفہ والوں کے لئے موت کا پروانہ بن چکے تھے ۔ لہٰذا ہر اس چیز کو آگ لگا دی گئی جہاں خطوط کے ہونے کا شائبہ بھی ہوتا ۔
قاتلینِ عثمان رض اور قاتلینِ حسین رض کو کوئی بھی حکمران نہ تو پکڑ پایا نہ سزا دے پایا ۔
شائد ﷲ کو یہ منظور نہ تھا کہ اتنی پاکیزہ ہستیوں پر ظلم کرنے والے لوگوں کو محض ایک ہی بار گردن کاٹ کر جہنم رسید کر دیا جاتا ۔ بصیرت رکھنے والے لوگوں کے دیکھنے کو ایک عبرت ناک اور مسلسل سزا کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
لمحوں نے خطا کی
صدیوں نے سزا پائی

Monday, September 26, 2016

QURAN ME GRAMATICAL MISTAKE (URDU)


 قرآن پر اسلام دشمنوں کے اعتراضات کا تحقیقی جوابات





۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(مولاناساجد خان صاحب نقشبندی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اعتراضات نیٹ پر مختلف زبانوں میں گوگل کے ذریعہ سے پھیلائے گئے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)اعتراض):

قرآن میں   وَالْجَآن خَلَقْنٰہُ مِنْ نَارِ السَّمُوْمِ میں ہ ضمیر راجع ہے جمع کی طرف جبکہ جان جمع ہے تو اس کے مطابق ھم ضمیر ہونی چاہئے تھی؟۔

)جواب):عزیز م یہاں جان جمع نہیں بلکہ جنس یا اسم جمع ہے جس کیلئے واحد کی ضمیر آتی ہے جیساکہ قرآن میں ہے اولا یذکر الانسان انا خلقنہ من قبل و لم یک شیاء (سورہ مریم 67) ۔
)
دوسرا جواب ):یہ ہے کہ یہاں جان سے مراد جنوں کا باوا آدم ہے اور ظاہر ہے کہ وہ واحدہے۔

اعتراض

:
سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّھَا الثَّقَلاَنِ یہاں الثقلان تثنیہ ہے مگر اس کیلئے ضمیر لکم آئی ہے حالانکہ اس کی جگہ لکما آنا چاہئے تھا۔

جواب : یہاں ثقلان سے مراد جنس سے جن و انس فردمراد نہیں ،بلکہ دونوں جماعتیں اور ان کے افراد مرادہیں اور وہ جمع ہیں جیساکہ دیگر مقامات پر فرمایا  فَاِذَا ھُمْ فَرِیْقَانِ یَخْتَصِمُوْنَ نیز فرمایا ھَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ  یہاں خصمان اگرچہ لفظا تثنیہ ہے مگر معنی جمع ہے کیونکہ اس سے ہر دو فریق فریق مسلم و فریق کافر جس کے تحت کئی افراد ہیں مراد ہے ۔نیز تثنیہ واحد کے بجائے جمع کے زیادہ قریب ہے دو افراد کی اکھٹے نماز کو جماعت کہا جاتا ہے انفرادی نما ز نہیں اس لئے جمع کی ضمیر لائے دیکھو قرآن میں ہے اِنْ تَتُوْباَ اِلیَ اللّٰہِ فَقَدْ ضَغَتْ قُلُوْبُکُمَا  ذکر دو خواتین کا ہے مگر ان کے دل کیلئے قلوب جمع لائے ہیں۔

اعتراض
:
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّ جَ الجاہلیۃ   یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطہیرا یہاں خطاب امہات المومنین سے ہے اس لئے عنکم مذکر کی ضمیر جمع کے بجائے عنکن آنی چاہئے تھی۔

جواب :یہاں اہل کا لفظ دراصل ذکر کیا ہے جو عزیز و اقارب کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے چونکہ بظاہر اہل کا لفظ جمع مذکر ہے اسلئے ضمیر میں بھی اسی کی رعایت رکھی گئی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے وََ ھلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی اِذْ رَأَی نَاراً فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْا اِنِّیْ ٰانَسْتُ نَاراً لَّعَلِّیْ ٰاتِیْکُمْ مِنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدیً یہا ں اہل سے مراد حضرت موسی علیہ السلام کی بیوی ہیں اس کے باوجود اہل کے ظاہر کی رعایت کرتے ہوئے صیغہ جمع مذکر کے لائے گئے ہیں۔قَالُوْ ا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَت اللہ و برکاتہ علیکم اہل البیت یہاں پر بھی خطاب حضرت زکریا علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کو ہے مگر ضمیر اہل بیت کی رعایت کرتے ہوئے جمع مذکر کی لائے ہیں۔

اعتراض

:
جناب معطوف ،معطوف علیہ بیک وقت پانچ چیزوں میں یکسانیت ہونا ضروری ہے اس میں ایک افراد ،تثنیہ ،جمع بھی ہے اب قرآن میں ہے وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَأْسِ ۔یہاں الصابرین کا عطف الموفون پر ہے جوکہ مرفوع ہے تو الصابرین کو بھی الصابرون مرفوع ہونا چاہئے تھا جبکہ یہ منصوب ہے ؟۔

(
جواب):یہاں الصابرین، الموفون پر معطوف نہیں بلکہ یہ امدح فعل محذوف کا مفعول بہ ہے ای اَمْدَحُ الصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآء۔

اعتراض

:
قرآن میں ہے اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَاَّلذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِءُوْنَ وَالنَّصَارٰی مَنْ آمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحاً اس میں الصابؤن کا عطف اِنَّ حرف از حروف مشبہ بالفعل پر ہورہا ہے لہذا یہ اس کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب ہونا چاہئے تھا مگر یہ تو حالت رفعی میں ہے؟۔

جواب : اگر قرآن میں نحوی غلطی ہوتی تو دوسرے مقام پر بھی ہوتی جیسا کہ یہی مضمون ایک اور مقام پر یوں بیان ہوا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِءِیْنَ وَالنَّصَارٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْن اَشْرَکُوْا انَّ اللہ یفصل بینھم یوم القیامۃ یہاں یہ منصوب ہے ۔دراصل جس آیت پر آپ کو اشکال ہوا وہاں الصابئین کا عطف اِنَّ پر نہیں ہورہا بلکہ دراصل یہ دو جملوں کا مجموعہ ہے پہلا جملہ ان الذین آمنوا ہے اور مفلحون محذوف اس کی خبر ہے ۔ آگے والذین ھادوا میں واو عاطفہ نہیں بلکہ استینافیہ ہے اور یہ مبتداء ہے اور آگے واو عاطفہ ہے اورالصابؤن کا عطف ھادوا پر ہورہا ہے۔ اور آگے مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ الآیۃ اس کی خبر ہے اور تقدیری عبارت یوں ہوگی
وَالْیَھُوْدُ وَالصَّابِءُوْنَ وَالنَّصٰارَی الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ مِنْھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔

اعتراض
:
قرآ ن میں ہے مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْنَ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَتْ مَا حَوْلَہُ ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ وَ تَرَکُھُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبْصِرُوْنَ
یہاں بنورھم کی ضمیر کا اعادہ استوقد پر ہورہا ہے اور یہ واحد کا صیغہ ہے ضمیر بھی واحد توبِنُوْرِھِمْ کی جگہ بِنُوْرِہٖ ہونا چاہئے تھا۔واحد پر جمع کی ضمیر کا اعادہ کیسے ممکن ہے ؟

جواب :جہالت ہے دراصل یہاں’’ تشبیہ تمثیلیہ ‘‘کا بیان ہے جس میں ایک حالت کو دوسری حالت سے تشبیہ دی جاتی ہے تو یہاں بھی منافقین کی حالت کی تشبیہ اس شخص کے ساتھ دی جارہی ہے جو آگ جلائے اور اللہ اس کو بجھادے تو وہ اس آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے یہاں بنورھم میں ھم ضمیر جمع مشبہ کی حالت کی رعایت رکھتے ہوئے لائے گئی ہے اور وہ منافقین ہیں نہ کہ مشبہ بہ جوکہ آگ جلانے والا ہے کیونکہ تشبیہ تمثیلیہ میں مقصود مشبہ ہوتا ہے مشبہ بہ نہیں ہوتا۔بنورھم کی ضمیر کا اعادہ مثلھمپرہے پس ا ب معنی یہ ہواکہ ان منافقین کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو آگ جلائے اور بجھ جائے کوئی انتفاء حاصل نہ کرسکے اسی طرح ان منافقین کانور بھی اللہ نے چھین لیا ہے اب یہ نور ایمان سے استفادہ حاصل نہیں کرسکتے۔
مثل المنافقین فی عدم استفادتھم من الایمان کمثل رجل استوقد نارا فلما اضائت ما حولہ ذھب اللہ بنارہ فلم یستفد منھا وکذالک المنافقون ذھب اللہ بنورھم فلم یستفیدوا من الایمان۔

اعتراض
:
سورہ بقرہ آیت 36 میں ہےِ انَّ اللّٰہَ لاَ یَسْتَحْیِی اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا اس میں فما فوقھا آیا ہے حالانکہ بلاغت کا تقاضہ تھا کہ یوں کہا جائے بعوضۃ فما اصغرھایعنی مچھر اور اس سے بھی چھوٹی چیز۔مچھر کے بعد تصغیر کے معنی والا صیغہ ذکر کرنا چاہئے تھا نہ کہ تکبیر والے معنی کا ۔

جواب :دراصل اہل عرب مچھر کو ذلت و حقارت کے بیان کیلئے ذکر کرتے ہیں توگویا جثہ یعنی جسم مراد نہیں بلکہ معنی مراد ہے یعنی اس کی حقارت تو یہاں بھی معنی کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اللہ مچھر کی مثال بیان کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتا تو حقارت و ذلالت میں اس سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہو تو اس کی مثال بیان کرتے ہوئے وہ کیوں شرمائے؟۔

دوسرا معنی یہ کہ یہاں جسم ہی مراد لو تو اس صورت میں یہ معنی ہوگا کہ اللہ نے مکڑی و مکھی کی مثالیں قرآن میں دیں تو اہل یہود اس پر معترض ہوئے کہ ان حقیر چیزوں کی مثالیں کیوں ذکر کی؟ تو اللہ نے بطور تعریض زجر و توبیخ کے کہا کہ اللہ تو مچھر کی مثال بیان کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتا تو اگر قرآن میں اس سے فوقھا یعنی اس سے بڑھ کر مکڑی و مکھی کی مثال بیان کردی تو کیوں اس پر شرمائے؟

قرآن کی بلاغت پر معترض اس جاہل کو اتنا بھی علم نہیں کہ ’’فوق‘‘از قبیل اضداد نہیں بلکہ ’’علو،عدد،صغر،کبر، قہر ، غلبہ‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے علماء نے اس کے مختلف ۶معنی بیان کئے ہیں جو سب قرآن میں مستعمل ہیں انظر بصائر ذوی التمیز فی لطائف الکتاب ،ج4،ص200۔
کلام عرب میں النملۃ فوق النملۃ اور الحمار فوق الحمار کی امثلہ موجود ہیں جس سے مراد اصغر من النملۃ والحمار ہے ۔علامہ سیوطی ؒ نے تو المزھر فی علوم اللغۃ میں لکھا ہے کہ فوق ’’دون‘‘کے معنی میں بھی مستعمل ہے تو اعتراض ہی ختم۔جیسے القشیب نئے اور پرانے اور زوج میاں اور بیوی دونوں کیلئے مستعمل ہے اسی طرح فوق بھی اوپر نیچے چھوٹے بڑے کیلئے مستعمل ہے ۔مختار الصحاح میں فوق کو’’دون‘‘ کے معنی میں لیکر مثال دی گئی فلان صغیر ھو فوق ذالک ای اصغر ذالک من ذالک ۔جس طرح فوق دون صغر کے معنی میں مستعمل ہے دون بھی فوق کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے قولھم ان فلانا لشریف فیجیب الاخر فیقول و دون ذالک ای فوق ذالک (تاج العروس)۔

قرآن پر نحوی اور معنوی اعتراضات کرنے والے اس جاہل کی اپنی بلاغت کا یہ حال ہے کہ فما فوقھا کی جگہ فما اصغرھا کہہ کر ہماری ٹھیٹ اردو میں ’’بلاغت کی ماں بہن ایک کررہا ہے ‘‘ حالانکہ اگر اس کی جگہ کوئی لفظ آنا بھی تھا تو ما اصغرھا نہیں بلکہ ما دونھا ذکر کیا جاتا ۔

Saturday, September 10, 2016

kya janwer sirf eid - qurba per hi zuba hote ha ?







خواجہ اجمیری رح کے پاس اک عورت اپنا بچہ لے کے آئ کہنے لگی! حضور میرا یہ لڑکا ہے ، یہ شکر بہت کھاتا ہے ، اسے منع کیجئے ، کہا ، کل آنا ، کل لڑکے کو لے کر آئ تو پھر سے کہہ دیا کہ کل آنا ، تیسرے دن لوٹی ، تو بولے اُن دنوں میں نے خود شکر کھا رکھی تھی ، سو میرا اس فعل سے کسی کو منع کرنا ، اصولاً ناجائز تھا!!

عید قرباں


گوشت خوری 
_
اب معاملہ یوں ہے کہ حفظِ ماتقدم ہمارے حریفین شیطین نے اک شگوفہ جوڑا کہ عید قرباں پہ جانور کاٹنا کھانا جانور پہ ظلم ہے! میں زیادہ وقت نہیں لوں گا __ !

1.MacDonald’s
2. Subway
3. Starbucks
4. Wendy’s
5. Burger King
6. Taco Bell
7. Dunkin’ Donuts
8. Pizza Hut
9. KFC
10. Chick-fil-A
11. Sonic Drive-In
12. Domino’s Pizza
13. Panera Bread
14. Arby’s
15. Jack in the Box
16. Dairy Queen
17. Chipotle Mexican Grill
18. Papa John’s
19. Hardee’s
20. Popeyes Louisiana Kitchen

یہ دنیا کی عظیم سیکولر سٹیٹس کی بیس سب سے بڑی فاسٹ فوڈ چینز ہیں ، اگر آپ مجھ پوچھیں کہ انکا بیسک فوڈ انگریڈینٹ کیا ہے؟ تو میں کہوں گا “چکن” بیف ” مٹن “!

جس لمحہ وہ حضور مظلومیت ِ جانوراں پہ قلمی جہاد کر رہے تھے اُسی لمحے اسی روشن خیال کی والدہ ِ ماجدہ کچن میں چھوٹے گوشت کا قیما بنا رہی تھی! جانوروں کے حقوق کے مجوِزہ ٹھیکداران کو جب جب بے وقت کی بھوک ستائے تو سب سے مہنگے ریسٹورینٹ پہ چکن زنگر برگر ، اٹیلین پیزا ، چیسٹ پیس ، لیگ پیس ، ملائ بوٹی ، سجی ، کڑھائ گوشت ، سیخ کباب ، بند کباب ، ڈرم سٹکس ، کلب چکن سینڈ وچ ، چکن فرائیڈ سینڈوچ ،چکن شوارما ،چکن پراٹھا رول ،چکن منچورین ،ریشمی کباب ، بیف کباب ، آلو گوشت ،نمکین گوشت ، کوفتے ، مغز مسالہ ،مٹن چنا دال ،وائیٹ بیف رول ،بیف چلی ،چانپ فرائیڈ ،مٹن بریانی ، بمبے بریانی ،چکن فرائیڈ تھریڈ رول ،چکن راٰئس ( پلاؤ) ،بوآلڈ چکن رول ، کھائے بغیر معدہ و ماحول ِ معدہ وطبعیت سہل نہیں ہونے آتی! مرغی خانے ، ڈیری ہاوس ، بکری فارم سے جدید سلاٹر ہاوسز تک سلاٹر ہاوسز سے تازہ گوشت مارکیٹ سے ریسٹورینٹ میں آتا ہے تو کیا بغیر زبح کیے بغیر کھال اتارے بغیر جان اُتارے بغیر دل گردہ پھیپھڑا الگ کیے بغیر ہڈی بوٹی الگ کیے بغیر چھری دکھائے بغیر ایزا دیے بغیر لہو بہائے بغیر جان لیے آپکے پیٹ میں اتر آتا ہے؟ ؟ ہم بروز عید قرباں جانور کو چھری دکھائیں تو ظالم بے رحم ٹھہرائے جائیں واہ تف منطق! یہی ملحد آگے پیچھے گوشت کو پراپر ڈائیٹ ، پروٹین وٹامن اے ،سی ،کے کا منبہ صحت انساں کے لیے بائیس مفید امائینو ایسڈ کا زریعہ سمجھ منہ میں ٹھونس ٹھونس نگل رہے ہوتے ہیں؟ تب جانور کا درد دانت کے نیچے محسوس کرنے سے قبل ڈاکڑ صاحب کا نسخہ یاد آجاتا ہے کہ بچے کو میٹ پروٹین کی اشد ضرورت ہے اسکے بغیر صحت آخری زاویے پہ پہنچ کے قفس ِ عنصری سے پرواز مار جائے گی تب نہ چھری کا خیال نہ قصائ کا خیال ، حقوق انجمنِ جانوراں کا متفقہ ڈھولکی باز ماچس کی تیلی سے جبڑوں میں دھنسی بوٹیوں کے ریشے نکال رہا ہوتا ہے ظالم گوشت خور بے حس بدقماش بے رحم بے مروت ،
جانور کا اتنا ہی احساس ملحوظ ہے تو سب سے پہلے آں جوتے اتار کے ننگے گھومیے یا لوہے پلاسٹک لکڑی کے جوتے پہنیے ، کاسمیٹک (چربی سے) سے لے صابن تک صابن سے لے کر بیگز تک بیگ سے لے کر جیکٹس تک جیکٹس سے لے کر فٹ بالز ، جوتوں تک اسی مظلوم قربانی کے کٹے بکرے گائے کی کھال کا پہنتے ہیں،Hush puppies,Service ,BATA ,Novelty یہ برانڈ جسے پاؤں میں ٹھونس کے گھومتے ہیں یہ انہی مظلوم قربانی کے جانوروں کی مرہونِ منت ہیں
انجمن ِ منافقاں!! کوئ گائے ہوتی ہے کوئ بکری کوئ مرغی ہوتی ہے کوئ شرم ہوتی ہے کوئ حیا ہوتی ہے __
__!
حد ِ منافقت کہ جب ہم خدا کے نام پر جانور غربا یتاماں ومساکیں جنہیں سالہا سال گوشت کی چھینٹ بھی نصیب نہیں ہوتی جنکے بدن اچھی مرغن غزا سے کب سے نابلد تھے ، گوشت کا زائقہ جنکے بچوں نے کبھی نہ سونگھا ہوگا، جن کے نقاہت انگیز بدن خوراک سے نڈھال بے حال تھکے درماندہ ، چہروں پہ پیلاہٹ ، کمزوری خمیدہ کمر خط غربت سے نیچےآتے مساکین کے طبقے کو جب ہم اپنی جیب کاٹ کے گوشت کھلاتے ہیں تو کیوں ان حرامی منافق گوشت خوروں کاہے تکلیف ہونے کو آنے لگتی ہے؟؟؟

 ہیومن رائٹس کے کاغزی کرتا دھرتا جانور کے حقوق چھری کے نیچے ہائ لائٹ کرنے والے انسانی جسمانی حقوق بلحاظ ِ خوراک کاہے بھول گئے؟؟؟ یاد رہے انسان اہم ہے ناکہ جانور ، جانور کو چھری تک اسکے حقوق پہچانا انسان کے زمہ ہے اسکے بعد اسکی خوراک بننا جانور کے ذمہ ہے! یونیورسل سوشل سائٹیفیک فیکٹ ہے! مگر یہاں ٹکے کوڑیوں کے بھاؤ پہ ملحد اسلام دشمنی پہ شگوفے چھوڑنے کا حق کوکھ مادر سے ہی لے کہ پنگھوڑے میں اترتے ہیں! 

.منافق

حکم ِمزبح یہ ہے کہ چھری ٹھنڈی نہ ہو تیز ہو ، جانور پیاسا نا ہو، جانور بھوکا نا ہو، جانور کو جانور کے سامنے نہ کاٹا جائے ، جانور کی ایک جھٹکے میں شہ رگ اور سپائنل کارڈ کا ریشا کاٹا جائ ، چھری بھی دیکھ نا پائے جانور ، ایک جست میں کاٹا جائے _ میڈیکل سائینس کے مصداق جتنی تیزی اور جلدی سے دماغ کی رگ اور شہہ رگ کٹے گی جانور اتنا ہی درد کم محسوس کرے گا ، کٹ جانے کے بعد جانور پاؤں اس لیے نہیں مارتا کہ درد ہو رہا ہے بلکہ اسکے ریفلکیس سگنل جو کہ میسج ہوتا ہے وہ دماغ کو نہیں جا پارہا ہوتا ، دماغ سُن اور خاموش اور بےحس ہو چکا ہوتا ہے ، درد دماغ محسوس کرتاہے جبکہ دماغ کی رگ ہی کٹ گئ کیبل کٹ گئ جھٹکے میں درد زیرو دماغ محسوس ہی نہیںں کر پاتا ، جیسے ڈاکٹر انجیکٹ کرکے چاہے جو مرضی عضو کاٹ لیں ، جانور قطعی طور پر درد محسوس نہیں کر رہا ہوتا وہ صرف سگنل کی دماغ کو ترسیل میں رکاوٹ کی وجہ سے میسج لے جانے والی کیبل منقطع ہو جانے کے بعد پھدکتا ہے __ سو یہ چھری تلے کسی لحاظ سے ظلم نہیں ، بلکہ آسان ترین موت ہے!

فوزیہ جوگن نواز 

1.falsafa qurbani aur mulhideen ke shuquq o shubhaat


فلسفۂ قربانی اور ملحدین کے شکوک و شبہات ، قسط 3:
***************************************

کیا قربانی سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے؟


ہمیشہ سے ﷲ تعالیٰ کا یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو جس چیز کی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کی پیدائش اور پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جس چیز کی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، آپ پوری دنیا کا سروے کریں اچھی طرح جائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم الشان حکم پر عمل کیا جاتا ہے، کیا ان ممالک میں قربانی والے جانور ناپید ہو چکے ہیں یا پہلے سے بھی زیادہ موجود ہیں؟، آپ کبھی اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے، کہ دنیا سے حلال جانور ختم ہو گئے ہیں یا اتنے کم ہو گئے ہیں کہ لوگوں کو قربانی کرنے کے لیے جانور ہی میسر نہیں آئے، جبکہ اس کے برخلاف کتے اور بلیوں کو دیکھ لیں، ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے؟ حالاں کہ تعجب والی بات یہ ہے، کتے اور بلیاں ایک ایک حمل سے چار چار پانچ پانچ بچے جنتے ہیں، لیکن ان کی تعداد بمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظر آتی ہے۔

مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ ﷲ کا قول: 

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ ﷲ قرآن پاک کی آیت ﴿وما انفقتم من شیٔ فھو یخلفہ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’
اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو ﷲ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں، کائناتِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے، انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے، مگر ﷲ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں، بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں، غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، ﷲ تعالیٰ کا عام دستور یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں، کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطۂ الہٰیہ کے منافی نہیں………………اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ نے جو اشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب ﷲ پیدا ہوتا رہتا ہے، جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، ﷲ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں،جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، ﷲ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا، مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بنسبت کتے بلی کے زیادہ ہے، جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔

عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔‘‘

(معارف القرآن، سورۃ السباء:۳۹، ۳۰۳/۷)رفاہی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے؟:

ہماری اس بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے غریب ومساکین اور ناداروں پر خرچ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہمارا مقصود محض یہ ہے کہ دس ذوالحجہ سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے اس کے لیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے، ہاں! جس شخص پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحبِ نصاب لوگوں کے لیے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقیناً بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے، رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکوٰۃ، صدقۃ الفطر، عشر، کفارات، نذور، میراث،Mufti Syed Adnan Kakakhail (Official):
دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کانظام متعارف کرایا ہے، ان احکامات کوپوری طرح عملی جامہ پہنا کر مطلوبہ نتائج ومقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں، نہ یہ کہ اسلام کے ایک عظیم الشان حکم کو مسخ کر کے تلبیس سے کام لیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے میں ہونے والی خرافات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے، طرح طرح کی مروج رسومات میں ضائع ہونے والے اربوں وکھربوں کی مالیت کے روپیے کو کنٹرول کیا جائے، نہ کہ ایک فریضے میں صرف کرنے والوں لوگوں کو بھی بہکا کر اس سے روک دیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

qurbani ( eid ul azha ) ki haqiqat kya hai ?


فلسفۂ قربانی اور ملحدین کے شکوک و شبہات، آخری قسط 

***************************************



قربانی کی حقیقت کیا ہے؟



اگر قربانی کی حقیقت پر نظر ہو تو بھی یہ وسوسہ پیدا نہیں ہو سکتا، قربانی تو یادگار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی، کہ ان کو حکم دیا گیا تھا، کہ اپنا بیٹا ذبح کرو، حالانکہ دوسری طرف خود قرآن کا اعلان ہے کہ قتل کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے، نیز بچوں کو تو جہاد کی حالت میں بھی بغیر کسی عذر کے قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، الغرض عقل کبھی بچے اور بالخصوص اپنے معصوم بچے کے قتل کو تسلیم نہیں کر سکتی، لیکن قربان جائیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کہ انہوں نے ﷲ سے یہ نہیں پوچھا کہ اے ﷲ! جو بچہ مجھے برسہا برس دعائیں مانگنے کے بعد ملا، آخر اس کا قصور کیا ہے؟ اور اگر قصور ہے بھی اس کو مارنے سے کیا حاصل ہو گا؟ نہیں ، اس لیے کہ جہاں اور جس کام میں ﷲ کا حکم آ جاتا ہے وہاں چوں چرا کی گنجائش نہیں رہتی، چاہے نفع نظر آئے یا نقصان۔
دوسری طرف قربانی کے جانور پر آنے والے اخراجات کا جائزہ لیجیے، آج کے اس مہنگائی والے دور میں بڑے جانور میں حصہ لینے کے لیے آٹھ یا نو ہزار روپے کافی ہیں اور اگر چھوٹا جانور لینا چاہیں تو بارہ سے پندرہ ہزار روپے میں کام چل جاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد سوچیے کہ اگرﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں حکم ہو کہ تمہیں اختیار ہے کہ تم اپنا بیٹا قربانی کے لیے ذبح کرو، یا اس کی بجائے (بارہ سے پندرہ ہزار روپے کا)جانور ذبح کرو۔تو بتلائیے کہ کون کس کو ترجیح دے گا، یقیناً بیٹے کے ذبح کے مقابلہ میں ہر عقل مند جانور ذبح کرنے کو ترجیح دے گا۔اب ایک نظر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ڈالیے کہ جب ان کو بیٹا ذبح کرنے کاحکم ملا (اور حکم بھی صراحۃً نہیں ملا، بلکہ خواب میں اشارۃً بتلایا گیا) تو انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی رُک کر یہ نہ پوچھا کہ یا باری عز وجل! اس میں میرے لیے کیا نفع ہے اور کیا نقصان؟اور ایک ہم ہیں کہ معمولی سا جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس میں میرا کیا نفع ہے؟اس کی بجائے یہ ہو جائے، وہ جائے، وغیرہ وغیرہ یہ قربانی کی روح کے خلاف ہے، یہ سوال کرنے والا درحقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب ﷲ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے ﷲ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں، اسی کی طرف ﷲ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ﴿فلما أسلما﴾جب انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا……۔ تو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے ایک ذہنیت دینا مقصود ہے، جسے فلسفۂ قربانی کا نام دیا جاتا ہے ، وہ یہی ہے کہ جب ﷲ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے ﷲ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں۔
سو ضرورت ہے کہ منکرینِ قربانی ، ملحدین اور مستشرقین وکفار کے اس زہریلے پراپیگنڈے کے مقابلے میں اہلِ اسلام پُرزور طریقے سے اس حکم پر عمل پیرا ہوں، اسی میں اہلِ اسلام کی خیر وبقا کا راز اور دینِ اسلام کی حفاظت مضمر ہے۔
اللہم وفقنا لما تحب وترضیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

HAJ AUR QURBANI KI AQLI TAUJIHAT





قربانی اور حج کی عقلی توجیہات اورملحدوں کی چال بازیاں۔



کوئی ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصے سے اس بات پر سوال اُٹھایا جاتا رہا ہے کہ قربانی اور حج جیسی عبادات کی رسومات کیوں ادا کی جائے؟ آخر معاشرے کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جو پیسہ اس میں خرچ ہوتا ہے اس کو کیوں نہ غریبوں اور محتاجوں کی ضرورت پوری کرنے میں لگایا جائے۔ وغیر وغیرہ۔
آج کل بھی اسی طرح سوالات بہت زوروں پر اُٹھائے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان سوالات پر کا جواب دیا جائے یا ان سوالات کی صحت ہی پر غیر کیا جائے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ سوال کرنے والا کسی ذہن سے سوال کر رہا ہے۔ سوال کرنے والے یہ تاثر دیتے ہیں گویا وہ دین کو تو مانتے ہیں لیکن باوجود کوشش کے دین کے ان احکامات کی حکمت سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ لیکن بحث کو ذرا سا آگے بڑھائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ بندہ صاف صاف خدا کا انکاری ہے یا اسلام کو خدا کے طرف سے نازل کردہ دین کے طور پر نہیں مانتا۔ بالفاظ دیگر بندہ مسلم ہی نہیں ہے!!
اگر کوئی یہ کہے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دین کے کسی حکم کی حکمت سمجھنے کے لئے سوال پوچھنےوالے کا کیا عقیدہ ہے تو یہ بات غلط ہے۔نفع اور نقصان کے احساس کا تعلق ہماری عقل کے ساتھ ساتھ ہمارے عقیدے سے بھی ہے۔ ملحدوں کے نزدیک نفع اور نقصان کے احساس میں لذت اور سرمایہ بالکل ہی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آخرت کا فائدہ،آخرت کے لئے دنیاکی لذتوں کو قربان کرنا نہ ان کی سمجھ میں آئے گا اور نہ وہ اس کو بطور فائدہ کے تسلیم کریں گے۔
حج اور قربانی کے فوائد کی تعبیرآخرت کے اجر اور خدا کے رضاکے علاوہ نفسیاتی اور عمرانیاتی لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے۔ عبادات کے مناسک انسانی فکرکی یکسوئی اور کسی عقیدے کو انسان کے ذہن میں راسخ کرنے کے لئے زبردست مؤثر ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں۔ اس کے لئے علم نفسیات سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مذاہب کی تاریخ کی گواہی بہت کافی ہے۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قربانی اور حج جیسا عمل کیسے اس کی روحانی اور فکری کیفیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مشرق تا مغرب تک پھیلی ہوئی امت کی شیرازہ بندی میں حج ، قربانی اور رمضان نے جوکردار ادا کیا ہے اس کے لئے ہمیں سوشیالوجی کا کوئی چیپٹر پڑھنے ضرورت نہیں ہے۔ جس کو بھی تاریخ اور حال کا ذرا سا بھی ادراک ہے اس کو اچھی طرح سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو اس گلوب میں پھیلی ہوئی مختلف زبان رنگ اور شکل صورت والی امت کو ایک امت بنا کر رکھا ہوا ہے۔
لیکن انہیں کیسا سمجھایا جائے جو اول تو اُمت نام کے کسی وجود کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ اور زبانی نہ سہی دل سے مان بھی رہے ہیں تو پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اُمت کے اندر جتنا زیادہ ہوسکےاتنا زیادہ انتشار پھیلا یا جائے۔
قصہ مختصر یہ کہ حج اور قربانی ہم اللہ کی رضا اور اس کے انعامات حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں ۔ یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔تو پہلے بتایا جائے کہ پوچھنا والا اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں۔
مزید یہ کہ ان عبادات کے ذریعے ہمارے اندر ہمارا ایمان مزید راسخ ہوتا ہے اور یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جس کے نزدیک ایمان کا راسخ ہونا اور اس پر ثابت قدمی کوئی معانی رکھتے ہیں۔
پھر یہ کہ ان عبادات کے ذریعہ مشرق تا مغرب پوری امت کو اللہ تعالی جوڑ رکھا ہے جوکہ اس اُمت مسلمہ کے سیاسی زوال کے بدترین دور کے باوجود اس اُمت کا ایک شاندار وجود دنیا کے سامنے لے آتا ہے۔ یہ بات انہیں کے لئے بامعنی ہے جن کے نزدیک "اُمّت" ، اس کی اجتماعیت اور اس کی اجتماعی شان قابل فخر بات ہو۔
اور ویسے بھی حج اور قربانی کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ملاحدہ اس امت کی شان و شوکت اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر اپنے دل میں خوب کڑھتے ہیں۔
الغرض
وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ سے انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں کہہ دو تم اپنے غصہ میں مرو الله کو دلوں کی باتیں خوب معلوم ہیں۔ سورہ آل عمران۔