Friday, October 14, 2016

aitraaz : shahdat usman r.a, jang jamal, jang siffeen aur shahdat husain r.a


برستے فتنے


 اعتراض  

المیہ اسلام
ابو لولو حضرت مغیرہ بن شعبہ کا ایک ایرانی غلام تھا جو لوہار اور بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ مغیرہ اس سے دو روپے یومیہ ٹیکس لیتے تھے۔ ابو لولو نے حضرت عمر سے شکایت کی کہ اس قدر محنت کرنے کے باوجود وہ جو کماتا ہے وہ مغیرہ ٹیکس کی شکل میں لے لیتے ہیں اور یوں اسے گزارہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حضرت عمر نے ایک عجمی غلام کے مقابلے میں صحابیِ رسول کے حق میں فیصلہ دیا۔ ابو لولو کو غصہ آیا اور ایک صبح وہ خنجر لے کر مسجد میں داخل ہو گیا اور حضرت عمرپر پے در پے خنجر کے کئی وار کئے ۔ لوگوں نے تعاقب کیا تو ابو لولو نے اسی خنجر سے خود کشی کر لی۔ حضرت عمر قاتلانہ حملے کے بعد بھی تین چار روز زندہ رہے۔
موت قریب دیکھ کر حضرت عمر نے نیا خلیفہ چننے کیلئے چھ صحابیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی۔ حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت زبیر بن عوام، حضرت سعد بن ابو وقاص، حضرت علی بن ابوطالب۔ طلحہ بن عبیداللہ اس وقت مدینہ میں موجود نہیں تھے۔ سب لوگوں کو حکم دیا گیا کہ حضرت عائشہ بنت ابوبکر کے ہاں جائیں اور کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لیں۔ سب حضرات عائشہ کے ایک کمرے میں جا بیٹھے۔ اور انتخابی گفتگو ہونے لگی۔ ایک شور کا سا سماں تھا۔ ہر کوئی اپنی فضیلت اور اہمیت پر زور دے رہا تھا۔ حضرت عمر تک اس نفاق کی خبر پہنچی تو انہوں نے حکم دیا کہ انتخاب کو میری موت تک موقوف کر دیا جائے، اس کے بعد سب لوگ اکٹھے ہوں۔ صحابی ابو طلحہ کو حکم دیا کہ اپنے ساتھ پچاس مسلح انصاری لو اور اس کمیٹی کے ارکان کو مجبور کرو کہ تین دن کے اندر اندر نیا خلیفہ چن لیں، اگر طلحہ بن عبیداللہ اس دوران لوٹ آئیں تو انہیں بھی شامل کر لو۔ ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اگر ان موجود پانچوں میں چار افراد ایک طرف ہوں اور ایک ان سے اختلاف کرے تو اس کی گردن مار دو۔ اگر تین ایک طرف ہوں اور دو اختلاف کر رہے ہوں تو ان دونوں کو قتل کر دو، اگر طلحہ بن عبیداللہ وقت کے اندر اندر آ جائے اور تین ووٹ ایک طرف ہون اور تین دوسری طرف تو عبدالرحمٰن بن عوف کو حق ہو گا کہ وہ کسی کو بھی خلیفہ مقرر کر دے۔ ور اگر ان تین دونوں کے اندر یہ لوگ کسی ایک فیصلے پر متفق نہ ہو سکیں تو سب کو قتل کر دو۔
یہ اعلان سن کر علی بن ابو طالب اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے پاس گئے اور کہا، چچا خلافت اس بار بھی ہمیں ملنے والی نہیں ہے کیونکہ سعد بن ابو وقاص عبدالرحمٰن بن عوف کے چچا زاد بھائی ہیں، اور عبدالرحمٰن عثمان کے قرابت دار۔ لہذا یہ دونوں اپنا ووٹ عثمان کو ہی دیں گے۔ اگر مجھے طلحہ بن عبیداللہ اور زبیر بن عوام کی حمایت مل بھی جائے تب بھی حتمی فیصلہ عبدالرحمٰن بن عوف نے ہی کرنا ہے۔ اگر عمر زندہ رہے تو میں ان سے کہوں گا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ کتنی زیادتی کی ہے اور اگر مر گئے تو آثار نظر آ رہے ہیں کہ عثمان کو ہی خلافت ملے گی۔ بخدا، اگر ایسا ہوا تو میں ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دوں گا۔
حضرت عمر کی وفات کے بعد ابوطلحہ اور پچاس مسلح انصاریوں کے نگرانی میں کمیٹی دوبارہ بیٹھی لیکن بات سلجھ نہ پائی۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے اپنا نام خلافت کے امیدواروں سے واپس لے لیا، وہ ایک رئیس آدمی تھے، اچھا کھانے اور پہننے کا شوق تھا۔ ان کیلئے نہ ہی خلافت میں کوئی کشش تھی اور نہ ہی وہ عمر بن خطاب جیسی خشک اور روکھی زندگی گزارنا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک خلاف تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب کوئی عمر بن خطاب جیسی زندگی گزارے وگرنہ سب اصحاب ان کا جینا مشکل کر دیں گے۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں خلافت کی امیدواری سے نام واپس لیتا ہوں۔ اگر آپ راضی ہوں تو مجھے امت مسلمہ کی بھلائی کیلئے خلیفہ منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ حضرت عثمان تو ایک دم سے راضی ہو گئے لیکن حضرت علی نے کہا کہ وہ سوچ کر بتائیں گے۔ لیکن انہیں بھی بالاخر منا لیا گیا۔
عبدالرحمٰن بن عوف نے سعد بن ابو وقاص کو بھی دستبرداری پر راضی کر لیا۔ وہ ان کے چچا زاد ہونے کے علاوہ سمدھی بھی تھے۔ زبیر بن عوام یہ دیکھ کر دب گئے کہ عبدارحمٰن بن عوف اور سعد بن ابو وقاص کی تائید سے محروم ہو کر اب ان کے خلیفہ بننے کے مواقع ختم ہو گئے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان نے حضرت زبیر بن عوام کی تالیف قلب کیلئے انہیں تین لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا۔ لہذا وہ بھی راست سے ہٹ گئے۔اب میدان میں صرف حضرت عثمان اور حضرت علی رہ گئے تھے۔
عبدالرحمٰن بن عوف باقی دنوں میں دوسرے معزز اصحاب رسول اور خاندان قریش سے بھی مشورہ کرتے رہے۔ حضرت علی کے حق میں صرف بنو ہاشم کے لوگ تھے، اہل مکہ کو حضرت علی پسند نہ تھے کیونکہ انہوں نے مختلف غزوات میں اہل مکہ کے کئی لوگوں کو قتل کیا تھا۔ کچھ روایتوں کے مطابق حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہونے والے غزوہ بدر میں 20 لوگ تھے جن میں اکثریت کا تعلق حضرت عثمان کے خاندانن بنو امیہ سے تھا، غزوہ احد میں حضرت علی نے 4 قریشیوں کو قتل کیا۔ حضرت علی کے اس ماضی کی وجہ سے قریش کے کئی بڑے خاندان جن کے بزرگوں کو حضرت علی نے قتل کیا تھا وہ ان سے ناراض تھے۔ حضرت علی کے مقابلے میں حضرت عثمان ایک شریف النفس اور صلح جو قسم کے آدمی تھے۔ وہ غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں رسول کریم کے ساتھ تھے۔ لیکن ان کے دامن پر کسی بھی انسانی خون کے چھینٹے نہ تھے۔ حضرت عثمان مرنے اور مارنے کی بجائے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ غزوہ احد سے تو ایسے سرپٹ بھاگے کہ تین دن بعد مدینہ واپس آئے۔
تیسرے دن پھر سب لوگ اکٹھے ہوئے جسے دیکھنے کیلئے بہت زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے پانچوں اصحاب سے حلف لیا کہ جو وہ فیصلہ کریں گے اسے تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد دونوں امیدواران سے کہا کہ آپ وعدہ کریں کہ خلیفہ بننے کی صورت میں اپنے خاندان کو لوگوں کو مسلمانوں پر مسلط نہیں کریں گے، نیز آپ رسول اللہ اور شیخین کے نقش قدم پر چلیں گے۔ حضرت علی نے جواب دیا کہ میں کیسے ایسا وعدہ کر سکتا ہوں جو میرے بس سے باہر ہے، رسول اللہ کے نقش قدم پر چلنا کس کے بس کی بات ہے۔ البتہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مجھ سے جو ہو سکا وہ میں کروں گا۔ جب یہی سوال حضرت عثمان سے پوچھا گیا تو انہوں میں عبدلرحمٰن کو اثبات میں جواب دیا۔ یہی سوال تین بار پوچھا گیا اور تینوں بار فریقین نے یہی جواب دیا۔ حضرت عثمان کے واضع اور حتمی جواب دینے اور حضرت علی کے غیر واضع اور غیر حتمی جواب دینے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ حضرت عثمان کو جتوانے کیلئے حضرت سعد بن وقاص نے حضرت علی سے کہا کہ عبدالرحمٰن بن عوف کو حتمی جواب پسند نہیں ہے، اور حضرت عثمان کو بتایا کہ عبدالرحمٰن بن عوف کو حتمی جواب پسند ہے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے حضرت عثمان کو خلیفہ مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ چند دنوں بعد طلحہ بن عبیداللہ واپس مدینہ آئے تو انہوں نے عمران خان کی طرح انتخاب کو ماننے سے انکار کر دیا کہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے، انتخاب دوبارہ کیا جائے۔ لیکن جب انہیں حضرت عمر کے اس فیصلے کی خبر ہوئی کہ متفقہ فیصلہ نہ ماننے والے کو قتل کردیا جائے تو وہ چپ ہو گئے۔ طلحہ حضرت عائشہ کے بہنوئی تھے اس لئے ان کی بہت خواہش تھی کہ طلحہ کو خلافت ملے اور یوں خلافت واپس ان کے خاندان میں واپس آ جائے۔
حضرت عثمان کو جس وقت خلافت ملی اس وقت ان کی عمر 70 سال تھی، ان میں حضرت عمر جیسا دبدبہ نہ تھا، لہذا وہ ہر مسئلے کا حل مطالبات کے سامنے جھک جانے سے کرتے تھے۔ انہوں نے خلافت سنبھالتے ہی خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ مدینہ میں ہر روز اعلان ہوتا کہ جس کسی نے راشن لینا ہو، آ کر لے لے، کسی دن کپڑوں اور جوتوں کیلئے اعلان ہوتے، لوگوں کے وضائف میں اضافہ کر دیا گیا۔ حضرت عمر نے صحابہ پر پابندی لگائی ہوئی تھی کہ وہ مدینہ سے باہر جا کر مقبوضات میں جا کر نہیں بس سکتے۔ کیونکہ ان کے بقول خلافت اسلامیہ کو سب سے بڑا خظرہ تب پیش آئے گا جب یہ معزز صحابہ دوسرے علاقوں میں جا بسیں گے۔ ان کے گرد عقیدتمندوں کا ہجوم اکٹھا ہو گا جس سے ان کے دل میں مرکز کے خلاف بغاوت جذبات ابھریں گے۔ لہذا اگر کسی معزز صحابی نے جنگ پر بھی جانے کی خواہش کی تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ آپ رسول اللہ کے زندگی میں جہاد میں حصہ لے چکے ہیں لہذا اب آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ مدینہ میں رہیں، نہ آپ دنیا دیکھیں اور نہ دنیا آپ کو دیکھے۔ لیکن حضرت عثمان نے صحابہ پر اس پابندی کو ہٹا دیا۔ اور ان کے خلاف سازشوں کا جال بچھنا شروع ہو گیا۔
مسلمانوں میں دھڑا بازی شروع ہو گئی۔ ایک طرف حکومت وقت کے بہی خواہ یعنی بنو امیہ کے لوگ تھے، ایک طرف طلحہ بن عبداللہ اور زبیر بن عوام کے اہل خاندان اور قبیلے تھے۔ وہی حضرت علی بھی بہت ناراض تھے۔ وہ ہمیشہ سے خلافت کے خواہشمند تھے، لہذا حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد بھی وہ مدینہ کے لوگوں سے بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ کی خواہش تھی کہ ان کے بھائی محمد بن ابوبکر کو کوئی اعلیٰ عہدہ دیا جائے، حضرت عثمان نے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ محمد بن ابوبکر کسی کسی جرم میں دھر لئے گئے، ان کی خواہش تھی کہ ان کا مواخذہ نہ ہو لیکن ہوا۔ جس سے حضرت عائشہ بہت ناراض ہوئیں۔
اس دھڑے بازی کے نتیجے میں حضرت عثمان کےہر جائز و ناجائز کام پر تنقید ہوئی جو بالاخر ان کی شہادت پر منتج ہوئی۔ سعد سے کسی نے پوچھا کہ عثمان غنی کے قتل کی ذمہ داری کس پر ہے تو بولے
عثمان غنی ایک ایسی تلوار سے قتل ہوئے جس کو عائشہ نے نیام سے نکالا، طلحہ نے تیز کیا، علی نے زہرپلایا اور زبیر نے ہاتھ کے اشارے سے قتل کر دیا“۔
حضرت عثمان کی شہادت تاریخ اسلام کا شائد سب سے بڑا المیہ ہے، یہی جنگ جمل و جنگ صفین کی وجہ بنی جس سے ہزاروں صحابہ کرام شہید ہوئے اور امت مسلمہ فرقوں میں بٹ گئی، جس کا نقصان آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔





  الجواب  

تحریر : محمّد سلیم

(شہادتِ عثمان رض ۔ جنگِ جمل ۔ جنگِ صفین اور شہادتِ حسین رض مسلمانوں کی تاریخ کے حساس موضوعات ہیں ۔ ایک مسئلہ تو اس پر لکھنے میں یہ ہے کہ علم یا تو بہت مبہم ہے یا اس میں جانبداری کا گمان ہوتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی نے حضرت علی رض کے حق میں لکھا تو حضرت عائشہ رض اور امیر معاویہ رض کر مجرم قرار دے ڈالا ۔ اور جس نے حضرت عائشہ رض کے حق میں لکھا اس نے حضرت علی رض کو قصور وار قرار دیا ۔ پھر ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ لکھنے والے فریقین میں ایک مخصوص گروہ کے علاوہ بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ان جنگوں میں شامل مسلمانوں کے دو گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کے حق میں لکھنے کے باوجود دوسرے گروہ کی تکذیب کے قائل نہیں ۔ اخلاقی اعتبار سے یہ بات درست سہی مگر منطقی اعتبار سے غلط سمجھی جائے گی ۔ اس مضمون میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ ہر فریق کا مثبت نکتۂ نظر اس انداز سے بیان ہو جائے کہ وہ عقلی معیار پر بھی پورا اترے ۔ چونکہ موضوع حساس ہے اور نیت صاف ہے لہٰذا پیشگی اپنے رب کے حضور کسی خطا کی یا گستاخی کی صورت میں توبہ کا طلب گار ہوں ۔)

"نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے بعد تم پر فتنے برستے ایسے دیکھتا ہوں جیسے بارش کے قطرے برستے ہیں ۔
ﷲ کے رسول جب تک دنیا میں موجود ہوتے ہیں شیطان کا کاروبار بند رہتا ہے مگر رسولوں کے فوت ہوتے ہی شیطان نئی توانائیوں کے ساتھ 
  میدانِ عمل میں آتا ہے اور انسانوں کو بھٹکانے کا کام شروع کر دیتا ہے ۔

عبدﷲ بن سبا ایک بنیاد پرست یہودی تھا جس نے حضرت عثمان غنی رض کے دور میں بظاہر کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا اور مسلمانوں کے خلاف ایسی سازشوں کا آغاذ کیا جن کے نتائج امتِ مسلمہ آج تک بھگت رہی ہے ۔
بظاہر وہ حضرت علی رض کے حق میں دلائل دیا کرتا مگر حقیقتاً اسلام دشمنی پہ مشتمل ۔ اس نے اپنی اس سازش کا آغاذ عرب کے مشرقی علاقوں سے کیا جہاں صحابہ کی تعداد نسبتاً کم تھی اور لوگوں میں یہ بات مشہور کرنی شروع کی کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے بعد خلافت اہلِ بیت کا حق تھا جسے معاذﷲ غصب کیا گیا ۔ اس پروپیگنڈے کے لئے اس نے کچھ معروف احادیث کا سہارہ بھی لیا اور کچھ اختراعی دعووں کا ۔ مثلاً بعض دفعہ وہ یہ دعویٰ کرتا کہ مجھے حضرت علی رض کی شبیہہ آسمانوں میں نظر آئی ہے ۔
نظریاتی طور پر اس نے امتِ مسلمہ کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ۔
ایک گروہ تو وہ تھا جو حضرت علی رض کی ویسی ہی فضیلت کا قائل تھا جیسی ابو بکر ۔ عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کی فضیلت کا ۔
مگر ایک دوسرا گروہ جو غیر محسوس طریقے سے زور پکڑتا گیا ان کا ماننا یہ تھا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مسندِ خلافت پہ حق ہے تو وہ یا تو علی رض ہیں یا ان کی آل ۔ کسی ایسے شخص کو جس کا تعلق نبی کے گھرانے سے نہ ہو اسے خلیفہ بننے کا کوئی حق نہیں ۔
اس طبقے نے نبی کے گھرانے کی بھی اپنی خودساختہ تشریح پیش کی جس میں صرف حضرت علی رض اور حضرت فاطمہ الزہرا رض کو ہی اہلِ بیت قرار دیا گیا ۔ امہات المومنین کو بھی اہلِ بیت سے باہر سمجھا گیا ۔
حضرت عثمان غنی رض پر اقربا پروری کا الزام لگانے والوں میں بھی اس گروپ کے لوگ پیش پیش تھے ۔ حالانکہ یہ ایک انتہائی احمقانہ اعتراض تھا ۔ یہ اعتراض حضرت عثمان غنی رض پر اس لئے فٹ نہیں بیٹھتا کہ وہ حکمران بننے سے پہلے بھی اقربا پرور ہی تھے ۔ بلکہ اقارب کیا ان کے در سے کوئی غیر بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا ۔ 
جب قیصرِ روم نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو مدینہ پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مسجدِ نبوی میں صحابہ کا اجلاس طلب کیا اور بات واضح کی کہ اب تک قبائلی لوگوں سے جنگیں کیں جہاں ہتھیاروں کی کمی کے باوجود فتوحات حاصل کی گئیں مگر اب دنیا کے طاقتور ترین ملک سے محاذ آرائی ہے لہٰذا تیاری کے لئے مال چاہئے ۔ یہی وہ وقت تھا جب حضرت ابو بکر رض اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے اور حضرت عمر رض آدھا ۔ مگر یہ کافی نہیں تھا لہٰذا آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو ﷲ کی راہ میں خرچ کرے اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں ؟ حضرت عثمان غنی رض کھڑے ہوئے اور مال سے لدے سو اونٹ عطیہ کرنے کا اعلان کیا ۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان بیٹھ جاؤ تمہیں جنت کی ضمانت دی جاتی ہے ۔ پھر فرمایا اور کوئی ہے ؟ تو دوبارہ عثمان رض کھڑے ہوئے اور مال سے لدے سو بیل عطیہ کئے اور نبی ص نے دوسری بار انہیں جنت کی بشارت دی ۔ اس طرح سات مرتبہ نبی ص نے اعلان فرمایا اور ساتوں بار عثمان رض ہی کھڑے ہوئے اور کچھ نہ کچھ عطیہ کیا ۔ جس پر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اے عثمان ! اگر تم آج کے بعد کوئی نیک عمل نہ بھی کرو تب بھی جنت میں جاؤ گے ۔ مفسرین کے مطابق اس حدیث میں جتنے مال کا اعلان حضرت عثمان رض نے فرمایا اس کی مالیت آج کے حساب سے تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ بنتی ہے ۔
یہ میں نے صرف ایک نشست میں دئے گئے مال کی کیفیت بیان کی ہے وگرنہ اسلام کی غربت کے دور میں جو مدد عثمان رض گاہے بگاہے مختلف مواقعوں پر کرتے رہے اس کو اس پوسٹ میں سمو دینا مشکل ہے ۔
اب ان تمام احسانات کے بعد کسی کا حضرت عثمان رض پر اقربا پروری اور سرکاری مال لٹانے کا الزام لگانا نہ صرف بیہودہ ہے بلکہ احسان فراموشی بھی ہے ۔
ایک الزام ان پر یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اہم عہدے دئے جن میں ان کے قبیلے بنو امیہ کے حضرت امیر معاویہ رض بھی شامل تھے ۔
حضرت امیر معاویہ رض حضرت ابو سفیان رض کے بیٹے تھے اور ان کو حضرت عمر رض نے اپنے دور میں دمشق کا گورنر مقرر فرمایا تھا ۔ حضرت عثمان رض نے اپنے دور میں ان کو مزید چار علاقوں کا گورنر مقرر کر دیا ۔ جن میں حمص, فلسطین, اردن اور لبنان کے علاقے شامل تھے ۔
حضرت عثمان رض کے اس فیصلے پر جہاں عام مسلمانوں کو تحفظات تھے وہاں جلیل القدر صحابہ بھی پیچھے نہ تھے ۔ حضرت عائشہ رض نے حضرت علی رض کو بھیجا کہ وہ اس فیصلے کی بابت حضرت عثمان رض کو باقی مسلمانوں کے تحفظات سے آگاہ کریں ۔
حضرت علی رض اور حضرت عائشہ رض کا خیال یہ تھا کہ اتنے سارے علاقے ایک ہی شخص کی تحویل میں دینا خود خلیفہ کے لئے سود مند نہیں ۔ خصوصی طور پر جب مسلمانوں کی ساری عسکری قوت بھی انہی علاقوں میں پائی جاتی ہو جہاں امیر معاویہ رض گورنر تھے ۔ خدشات یہ بھی تھے کہ معاویہ رض کی گورنری میں جو علاقے تھے وہ مرکز یعنی مدینہ اور مغربی علاقوں کے بیچ میں آتے تھے ۔ یعنی اگر امیر معاویہ رض بغاوت کرتے تو ان کے بعد آنے والے مغربی علاقوں کو مرکز سے کاٹ کر اپنے ساتھ شامل کر سکتے تھے ۔
حضرت علی رض نے یہ تمام باتیں حضرت عثمان غنی کے گوش گزار دیں مگر انہوں نے یہ کہہ کر اطمینان دلوایا کہ امیر معاویہ انتہائی بھروسہ لائق انسان ہیں اور ویسے بھی انہیں گورنر بنانے کا فیصلہ عمر رض کا تھا نہ کہ میرا ۔
صحابہ کرام کے متعلق عمومی طور پر مسلمانوں میں میں بھی یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ شائد وہ مافوق الفطرت لوگ تھے یا کسی اور سیارے کی مخلوق تھے جن میں نہ تو اختلاف ممکن ہے نہ ہی فیصلہ سازی کی غلطی ۔ صحابہ کرام بلاشبہ مسلمانوں کی بہترین جماعت تھی مگر وہ انسان تھے ۔ تقویٰ کے معاملے میں عظیم ترین لوگ تھے مگر جذباتی کیفیات ان کی بھی ویسی ہی تھیں جیسی آج کے کسی مسلمان کی ہو سکتی ہیں ۔
انسان سوچتا کچھ اور ہے مگر ہوتا وہی ہے جو ﷲ کو منظور ہوتا ہے ۔
حضرت علی و عائشہ رض کے یہ خدشات بالکل منطقی تھے کہ امیر معاویہ رض کو اتنے طاقتور علاقوں کا گورنر نہ بنایا جائے مگر حضرت عثمان رض کا بھروسہ بھی امیر معاویہ رض پر غلط نہیں تھا اگر وہ سب کچھ نہ ہوتا جو بعد میں ہوا ۔
حج کے موقعے پر مدینہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد حج کے لئے مکہ چلی جاتی ۔ یہ وہ وقت تھا جس کو حضرت عثمان رض کی شہادت کے لئے چنا گیا ۔ دو ہزار کے قریب بلوائیوں نے اچانک مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان غنی رض کے گھر کو محاصرے میں لے لیا اور معزولی کا مطالبہ کر دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ حضرت عثمان معاملات کو ٹھیک سے نہیں چلا رہے لہٰذا ان کی جگہ حضرت علی رض کو خلیفہ مقرر کیا جائے ۔ حضرت عثمان رض نے یہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ کیا میں تلوار کے زور پہ آیا تھا جو تلوار کے خوف سے چلا جاؤں ؟
حضرت عثمان غنی رض کے پاس اس وقت 700 کے قریب محافظ موجود تھے جو اس فتنے سے لڑنے کے لئے تیار تھے مگر حضرت عثمان رض نے ان کو اس لئے روکے رکھا کہ مدینہ کی حرمت پامال نہ ہو ورنہ آس پاس کے صوبوں سے مزید فوجیں بھی طلب کی جا سکتیں تھیں ۔ یہ بات بھی شائد کسی کے وہم و گمان میں نہ تھی کہ معاملہ حضرت عثمان رض کی شہادت پہ جا کر ختم ہو گا ۔
حضرت عثمان رض کی شہادت کے واقعے میں اور حضرت حسین رض کی شہادت کے واقعے میں بہت زیادہ فرق ہمیں نہیں ملتا ۔ دونوں کام بلوائیوں کے ذریعے کروائے گئے اور دونوں میں کرنے والوں کی نفرت اور بربریت عیاں ہوتی ہے ۔ لوٹ مار خواتین کی بے حرمتی آگ لگانا ۔ غرض کوئی کام ایسا نہیں ملتا جو قتل حسین میں ہوا ہو قتل عثمان میں نہ ہوا ہو ۔ حضرت حسین رض کی شہادت کے واقعے میں ہم اکثر سنتے ہیں کہ کس طرح خواتین کی بے حرمتی کی گئی ۔ مگر شائد پڑھنے والوں کے لئے یہ بات نئی ہو گی کہ قتل عثمان والے واقعے میں امہات المومنین کی بے حرمتی کی گئی اور حضرت عائشہ یہ کہہ کر مدینہ چھوڑ کر مکہ ہجرت کر گئیں کہ کیا اب میں اپنی بھی بے حرمتی کرواؤں ؟ تقریباً پورے مدینہ پر بلوائیوں کا قبضہ تھا اور وہ مدینے کی گلیوں میں دندناتے پھر رہے تھے ۔
اگلا مرحلہ خلافت کے فوری قیام کا تھا جس کے لئے حضرت علی رض کو چنا گیا ۔ اس لئے نہیں کہ یہ بلوائیوں کا مطالبہ تھا بلکہ مسلمانوں کے پاس حضرت عثمان رض کے بعد حضرت علی سے بہتر کوئی اور مقابل تھا ہی نہیں ۔
حضرت علی رض کی خلافت شروع میں ہی کمزوریوں کا شکار ہو گئی جب حضرت امیر معاویہ رض کی طرف سے یہ پیغام آیا کہ ہم اس وقت تک نئے خلیفہ کی اطاعت کا اعلان نہیں کریں گے جب تک حضرت عثمان رض کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی ۔
سوچنے والوں نے بہت سوچ سمجھ کر سازش کے تانے بانے بنے تھے ۔ حضرت امیر معاویہ رض حضرت عثمان غنی کے ہم قبیلہ بھی تھے اور قریبی رشتے دار بھی ۔ لہٰذا ان کے لئے ایک ایسے خلیفہ کو تسلیم کرنا بہت مشکل تھا جس کا مطالبہ خود قاتلینِ عثمان کی طرف سے آیا تھا ۔ بے شک ان سے براہ راست حضرت علی پر الزام لگانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ مگر بلوائیوں کے معاملے میں وہ حضرت علی رض پہ بھی بھروسہ کرنے کو تیار نہ تھے ۔
حضرت علی رض خود بھی قاتلینِ عثمان کے معاملے میں کمزوری دکھانے کے حق میں نہیں تھے مگر اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جس طاقت کی ضرورت تھی وہ امیر معاویہ رض کو ساتھ ملائے بغیر پوری نہ ہوتی تھی ۔ پھر بلوائیوں کا تعلق کسی ایک خاص علاقے سے نہ تھا کہ محض ایک علاقے پر آپریشن ضربِ عضب ٹائپ کا کوئی آپریشن کر کے فتنے کو کچل دیا جاتا ۔ بلکہ یہ مختلف صوبوں کے تھوڑے تھوڑے لوگ تھے ۔ جن سے لڑنے کی صورت میں ایک طویل خانہ جنگی شروع ہو سکتی تھی ۔
پھر یہ مطالبہ محض امیر معاویہ رض کا نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس مطالبے کے حق میں تھی جن میں حضرت عائشہ رض حضرت طلحہ رض اور حضرت زبیر رض بھی شامل تھے ۔
حضرت علی رض کے پاس کوئی ایسی عملی صورت موجود نہیں تھی جس سے قاتلینِ عثمان کے اصل مجرموں کو بے نقاب کیا جا سکتا اور سزا دی جا سکتی ۔ ممکن صورت صرف یہی بچتی تھی کہ امیر معاویہ سے مذاکرات کئے جائیں اور ان کو کسی بھی طرح اطاعت پر آمادہ کیا جائے اس کے بعد قاتلینِ عثمان کی خبر لی جائے ۔ مگر حضرت امیر معاویہ نے سزا سے پہلے کسی بھی قسم کی اطاعت یا مدد سے انکار کر ڈالا ۔
اب آخری حل بس یہی تھا کہ بزور طاقت امیر معاویہ رض کے خلاف محاذ آرائی کی جائے ۔ مگر یہ بھی جانتے تھے کہ یہ ایک بے جوڑ لڑائی تھی جس میں امیر معاویہ رض کا پلڑہ بہت بھاری تھا ۔
لشکر کی کمی کو بالاخر انہی بلوائیوں سے پورا کرنا پڑا جنہوں نے حضرت علی رض کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس نے حضرت عائشہ رض کو بھی حضرت علی رض کے خلاف کر دیا ۔ حضرت عائشہ رض کا پہلا مسئلہ یہ تھا کہ وہ امیر معاویہ رض اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کی طرف سے کئے جانے والے مطالبے کو جائز سمجھتی تھیں ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ امیر معاویہ رض کے خلاف لشکر کشی کے خلاف تھیں اور تیسرا مسئلہ جو جنگِ جمل کی بنیاد بنا وہ یہ کہ جن لوگوں کو انہوں نے مدینہ میں شر پھیلاتے دیکھا ۔ ام المومنین حضرت سودہ رض کی توہین کرتے دیکھا اور ہجرت کی انہی لوگوں کو حضرت علی رض کا ساتھ دیتے بھی دیکھا ۔ لہٰذا جذباتی کیفیت کی تقاضا یہی تھا کہ حضرت علی رض کو امیر معاویہ رض کے خلاف لشکر کشی سے روکا جائے ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے طلحہ و زبیر کے ساتھ مل کر ایک اور لشکر ترتیب دیا جس نے حضرت علی رض کو راستے میں ہی روک لیا ۔ حضرت علی رض جو امیر معاویہ رض کی سرکوبی کرنے نکلے تھے انہیں راستے میں حضرت عائشہ رض کے لشکر سے الجھنا پڑا ۔ صحابہ کرام کی دونوں طرف کمی تھی کیوں کہ زیادہ تو صحابہ نے آپس کی ان لڑائیوں میں شرکت کرنے سے زیادہ غیر جانبدار رہنے کر ترجیح دی ۔ 
یہ لڑائی زیادہ طویل نہ ہو سکی ۔ حضرت عائشہ رض اور ان کے ساتھی شکست سے دوچار ہوئے اور انہیں عزت و احترام سے واپس مدینہ بھجوا دیا گیا ۔
جنگِ سفین میں معاملہ کچھ اور تھا ۔ یہاں حضرت علی رض کا مقابلہ محض ایک جذباتی ٹولے سے نہیں بلکہ مسلمانوں ہی کی ایک تربیت یافتہ فوج سے تھا ۔ تین دن کی لڑائی میں حضرت علی رض اور ان کے ساتھی شکست کے دہانے تک پہنچ گئے ۔ مگر ﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ تیسرے دن کی لڑائی میں امیر معاویہ رض کے لشکر کے ہاتھوں حضرت عمار رض کی شہادت کا واقعہ ہوا ۔ یہ وہ صحابی تھے جن کے بارے میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کی شہادت مسلمانوں کے ایک باغی گروہ کے ہاتھوں سے ہو گی اور یہ حدیث امیر معاویہ رض کے لشکر میں موجود صحابہ اور مسلمانوں کے بھی علم میں تھی ۔ اس شہادت نے امیر معاویہ رض کے لشکر میں موجود مسلمانوں کے دلوں میں وہ سوال کھڑے کر دئے جن کی وضاحت کرنا خود امیر معاویہ رض کے لئے بھی ناممکن تھا ۔ لہٰذا جنگ موقوف کر کے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی طرف لوٹنا پڑا ۔
یہ مذاکرات کسی خاطر خواہ نتیجے تک نہ پہنچ پائے کہ امیر معاویہ رض نے بدستور اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے اور حضرت علی رض کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ مگر فائدہ محض یہ ہوا کہ مسلمانوں کے یہ دو گروہ آپس میں مزید کسی محاذ آرائی سے باز آگئے ۔
ان جنگوں کے بعد امتِ مسلمہ حکمرانی کے اعتبار سے دو گروہوں میں بٹ گئی ۔ ایک طرف حضرت علی رض تھے جن کا مرکز مدینہ تھا اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رض جن کا مرکز شام و دمشق تھے ۔
حضرت علی رض کے بعد مدینہ کی حکمرانی کی باگ ڈور حضرت حسن رض کے سپرد کر دی گئی ۔ حضرت حسن رض کے بارے میں نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا ۔
حضرت حسن رض نے مسندِ خلافت پہ براجمان ہوتے ہی اس کام کے لئے کاوشیں شروع کر دیں ۔ ان کا ماننا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہوتے ہیں لہٰذا اگر امت ایک ہے تو حکمران دو کیسے ہو سکتے ہیں ؟ لہٰذا حضرت امیر معاویہ رض سے مذاکرات کے بعد وہ حضرت امیر معاویہ رض کے حق میں دستبردار ہو گئے اور امیر معاویہ رض بلاشرکت غیرے پوری مسلم امہ کے متفقہ حکمران قرار پائے ۔ طاقت ایک جگہ جمع ہوئی تو فتوحات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں سے دوبارہ جوڑا گیا ۔
حضرت امیر معاویہ رض کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے یزید کو حکمران نامزد کیا گیا ۔ یزید کے دورِ حکمرانی میں سبائی فتنہ جس کو حضرت علی رض اور حضرت امیر معاویہ رض نے تقریباً کچل کر رکھ دیا تھا ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ۔ ان کا مرکز ایک بار پھر کوفہ اور عراق کی سرزمین بنی اور حضرت حسین رض سے خطوط کے ذریعے باقائدہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ یزید کے خلاف اعلانِ بغاوت کریں اور اپنا حق واپس حاصل کریں ۔
حصرت حسین رض کے مدینہ سے کوفہ جانے کی وجوہات میں کئی موقف بیان کئے گئے ہیں ۔
کچھ کے خیال میں حضرت حسین رض خلافت حاصل کرنے کے لئے مدد لینے کی غرض سے کوفہ گئے اور کچھ کے نزدیک ان کا وہاں جانے کا مقصد حالات کا جائزہ لینا اور باغیوں کو ان کے ارادے سے باز رکھنا تھا ۔ کچھ صحابہ نے اس بات پر بھی گواہی دی کہ مدینہ میں موجود صحابہ نے حضرت حسین رض کو کوفہ جانے سے روکنے کی کوشش کی اور ان کو یہاں تک کہا کہ آپ کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں مگر حضرت حسین رض نہ مانے ۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت حسین رض نے یزید کی بیعت لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ مگر حضرت حسن رض کی اتنی بڑی قربانی کے بعد انہی کے چھوٹے بھائی کا یزید کی بیعت لینے سے انکار کرنا اور اسے خلافت سے ہٹانے کے لئے کوشش کرنا انتہائی غیر منطقی معلوم ہوتا ہے ۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی آل کا مقصد اگر خلافت کا حصول ہوتا تو حضرت حسن رض کر امیر معاویہ رض کے حق میں دستبردار ہونے کی ضرورت ہی نہ تھی ۔
اس معاملے میں بہت ساری آراء ہیں مگر جو منطقی لگتی ہے وہ یہی ہے کہ حضرت حسین رض کا مقصد بھی وہی تھا جو حضرت حسن رض کا تھا ۔ یعنی امت کو کسی فتنے میں پڑنے سے بچانا ۔ ممکن ہے حضرت حسین رض کوفہ والوں کے ڈھیر سارے خطوط کی وجہ سے اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہوں کہ یہ لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔ اگر میں وہاں جا کر ان کو سمجھاؤں تو میری بات مان جائیں گے اور بغاوت کے ارادے سے باز آجائیں گے ۔ تبھی اپنے خاندان سمیت سفر کیا ۔ یزید کے پاس حضرت حسین رض کو شہید کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی ۔ جتنا بڑا علاقہ اس کی حکمرانی میں آتا تھا اس کو دیکھتے ہوئے کوفے والوں کی بغاوت ایک دن بھی نہ ٹک سکتی تھی ۔
کچھ مورخوں کے مطابق یزید کو کوفہ میں پکنے والی اس کھچڑی کا علم اس وقت ہو چکا تھا جب حضرت حسین رض سفر میں تھے اور ان کے پہنچنے سے پہلے اس نے ایک لشکر بھیج کر کوفہ والوں کی بازپرسی کی ۔ مگر کوفہ والے کسی بھی قسم کی بغاوت سے صاف مکر گئے اور نہ ہی ان کو یہ خبر دی کہ حضرت حسین رض ان کے بلانے پر کوفہ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں اور پھر یزید کی فوجوں کو مطمئین کر کے واپس بھجوانے کے بعد راستے ہی میں کربلا کے مقام پر حضرت حسین رض کو گھیر لیا گیا اور ظلم کی ایک داستان رقم کی ۔ یہ کام اگر یزیدی فوج کا ہوتا تو خیموں کو آگ لگانے کی ضرورت نہ تھی ۔ بلکہ ہر مال کو مالِ غنیمت سمجھا جاتا مگر آگ لگانے کی داستان سے لگتا ہے کہ وہ خطوط جو حضرت حسین رض کو بھیجے گئے تھے وہ خود کوفہ والوں کے لئے موت کا پروانہ بن چکے تھے ۔ لہٰذا ہر اس چیز کو آگ لگا دی گئی جہاں خطوط کے ہونے کا شائبہ بھی ہوتا ۔
قاتلینِ عثمان رض اور قاتلینِ حسین رض کو کوئی بھی حکمران نہ تو پکڑ پایا نہ سزا دے پایا ۔
شائد ﷲ کو یہ منظور نہ تھا کہ اتنی پاکیزہ ہستیوں پر ظلم کرنے والے لوگوں کو محض ایک ہی بار گردن کاٹ کر جہنم رسید کر دیا جاتا ۔ بصیرت رکھنے والے لوگوں کے دیکھنے کو ایک عبرت ناک اور مسلسل سزا کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
لمحوں نے خطا کی
صدیوں نے سزا پائی

No comments:

Post a Comment