Sunday, August 28, 2016

HARAAM AUR HALAAL ( SET OF QUESTIONS) URDU


حرام اور حلال




کچھ سوالات پوچھے گئے تھے گروپ میں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
  • ١ ۔ کیا حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کا نکاح ہوا تھا ؟ کیا یہ نکاح ﷲ نے پڑھایا تھا ؟
  • ٢ ۔ کیا حضرت مریم علیہ السلام کا نکاح ہوا تھا ؟
  • ٣ ۔ ایک سوال اور بھی انٹرنیٹ پر موضوعِ بحث ہے کہ کیا نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ﷲ نے پڑھائی تھی ؟
  • ٤ ۔ پہلی وحی کے نزول کے بعد وحی کا سلسلہ رک جانے کے بعد نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم پہاڑ پر جاتے اور اپنے آپ کو گرا دینے کا ارادہ کرتے مگر جبریل علیہ السلام ان کو روک دیتے ؟


اس بات کی وضاحت میں ایک باردینِ اسلام میں گناہ و ثواب کا تصور صرف اور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جس کام کو کرنے کا حکم ﷲ یا ﷲ کا رسول دے وہ فرض ہے اور جس کام سے ﷲ یا ﷲ کا رسول روک دے وہ حرام ہے ۔
اس بات کی مثال اس بات سے لیجئے کہ شبِ معراج کے واقعے میں نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے سامنے ضیافت کی غرض سے دو گلاس رکھے گئے ۔
ایک گلاس دودھ کا اور دوسرا شراب کا ۔
نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے دودھ کو پسند فرمایا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یا رسول ﷲ اگر آپ شراب کو پسند فرماتے تو آپ کی امت فتنے میں مبتلا ہو جاتی ۔
یہاں مسلمانوں میں بھی یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگر معاذ ﷲ رسولِ کریم صلی ﷲ علیہ وسلم شراب کی طرف ہاتھ بڑھا دیتے تو کسی حرام کام کے کرنے کے مرتکب ہو جاتے (معاذ ﷲ) ۔ حالانکہ جو بات جبریل علیہ السلام ارشاد فرما رہے ہیں وہ کسی اور طرف اشارہ کرتی ہے ۔
دینِ اسلام میں ﷲ اور رسول کا حکم فرض کا درجہ رکھتا ہے اور جو کام نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم اختیار فرما لیں وہ سنت کا درجہ رکھتا ہے ۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کا شراب کی طرف ہاتھ نہ بڑھانا اس کی حرمت کے سبب نہیں بلکہ حکمت کے سبب تھا ۔ ورنہ جو چیز ﷲ کی طرف سے ہی ضیافت میں پیش کی گئی اس کو اختیار کرنے کا گناہ ﷲ کیسے دے سکتا ہے ؟ یعنی جو بات جبریل علیہ السلام نے فرمائی وہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم شراب کو اختیار کرتے تو شراب کی حرمت کا حکم ہی نہ آتا ۔ لیکن چونکہ وہ انسان کی دماغی اور جسمانی صحت کے لئے اچھی نہیں لہٰذا امت فتنے میں مبتلا ہو جاتی ۔
اس کی ایک مثال حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے جنت والے واقعے میں بھی موجود ہے ۔
حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت میں داخل کیا گیا تو ان کو کہا گیا کہ کھاؤ پیو جہاں سے چاہو مگر اس درخت کے پاس مت جانا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔
امتِ مسلمہ کے زیادہ تو مفسرین کے مطابق جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا وہ گندم تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گندم حرام ہے ؟ جی نہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ حرام اور حلال کی تمیز بتاتا کون ہے ؟ صرف اور صرف ﷲ ۔ اگر ﷲ کہے گندم حلال ہے تو حلال ہو گئی اور جب ﷲ کہہ دے حرام تو حرام ہو گی ۔ یہی معاملہ شراب اور تمام باقی چیزوں کے ساتھ بھی ہے ۔ ابلیس کو کہا گیا کہ آدم کو سجدہ کرو ۔ کیا آدم کو سجدہ کرنا حلال ہے ؟ جی نہیں ۔ مگر اگر حرام اور حلال قرار دینے کا حق ہی ﷲ کا ہے اور وہی کہہ رہا ہے کہ کرو تو جو کام آج حرام ہے وہ اس وقت فرض تھا ۔ فرشتے ان قوانین سے واقف تھے ۔ لہٰذا وہ بغبر کسی حیل و حجت کے فوراً سجدے میں چلے گئے ۔ ورنہ ﷲ کی عبادت گزار مخلوق سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے کی ﷲ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا کیسا عمل ہے ؟ ﷲ کو سجدہ ﷲ کی خوشنودی کی غرض سے ہی تو کیا جاتا ہے اور اگر ﷲ ہی کہے کہ آدم کو سجدہ کرو تو جس کا مقصد ﷲ کی خوشنودی ہے اسے اس پر بھی اعتراض نہ ہو گا ۔
یہی معاملہ صادق آتا ہے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے اپنے آپ کا پہاڑ سے گرا لینے کے ارادے پہ ۔ جبریل علیہ السلام کا ان کو روک دینا اس سبب نہیں تھا کہ خودکشی حرام ہے ۔ یہ اصول تو بعد میں طے ہونا تھے ۔ مقاصد وسیع تر تھے اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم ﷲ کی حکمتوں سے لاعلم تھے ۔ جو وحی کے ذریعے بعد میں گاہے بہ گاہے ان کو بتائی جاتی رہیں ۔
اس ضمن کا ایک سوال اور بھی ہے اس کا جواب ہو جائے پھر نکاح کے حوالے سے بات ہو گی ۔
کیا نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ﷲ نے پڑھائی تھی ؟ جی نہیں ۔ بالکل بھی نہیں ۔
پہلے تو اس بات کو سمجھ لیجئے کہ نمازِ جنازہ ہے کیا ؟
جب بھی کوئی مومن فوت ہو جاتا ہے تو اس کا حق ہوتا ہے کہ دوسرے مسلمان نمازِ جنازہ کے ذریعے اس کی مغفرت کی سفارش کریں اور ﷲ سے دعا مانگیں کہ ﷲ ان کے فوت شدہ کے گناہ معاف کر کے اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے ۔ اس پورے عمل کو نمازِ جنازہ کہا جاتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم (معاذ ﷲ)خطا کار تھے ؟ جی نہیں ۔ ذرہ برابر بھی نہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام جن کو ہر مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھانا خود نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے سکھائی تھی انہوں نے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائی ۔ بس کچھ مسلمان حجرۂ عائشہ رض میں جاتے اور درود و سلام پڑھ کر باہر آجاتے ۔ پھر اور لوگ چلے جاتے ۔ جب یہ سلسلہ تھم گیا تو تدفین کر دی گئی ۔
او بھائیو ! جس نبی نے روزِ آخرت میں پوری امتِ مسلمہ کی سفارش محض اپنے ذاتی اعمال کے بل بوتے پہ کرنی ہے کس کی ہمت تھی جو ان کی نمازِ جنازہ کی امامت کے مصلے پر کھڑا ہو کر ﷲ سے ان کی مغفرت کی سفارش کرتا ؟ یہی وجہ ہے کہ کسی صحابی نے یہ کام نہ کیا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نمازِ جنازہ ﷲ نے پڑھائی ؟ افسوس صد افسوس ۔ ﷲ کیوں پڑھائے گا نمازِ جنازہ ؟ ﷲ کس کو کہے گا کہ اس بندے کو بخش دے جب کہ بخشنے والی ذات خود اسی کی ہے ؟ جو کام کیا ہی ﷲ کی خوشنودی کے لئے جا رہا ہے وہ ﷲ کس کی خوشنودی کے لئے کرے گا ؟
اب آجائیے نکاح کی طرف ۔ یہ بات بالکل واضح ہو چکی کہ حرام کیا ہے اور حلال کیا ہے لہٰذا اب اس نکتے کو سمجھنا نہایت آسان ہے ۔
کیا نکاح کسی ایسے فلٹر کا نام ہے جس کے بیچ میں آجانے سے پیدا ہونے والے بچوں کے حرام یا حلال ہونے کا فیصلہ ہو گا ؟ جی نہیں ۔ یہ بھی ﷲ کا ایک حکم ہی تو ہے ۔
نکاح کا حکم صرف اس لئے دیا گیا ہے تاکہ مرد اپنے لئے کچھ عورتیں مخصوص کر لے اور جگہ جگہ منہ نہ مارتا پھرے ۔ گواہان کی شرط اس لئے ہے کہ اس پر بعد میں زنا کاری کا الزام نہ لگایا جا سکے ۔ مگر جب ﷲ نے صرف ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت کو پیدا کیا اور یہ بات طے شدہ ہے کہ روئے زمین پر ان کے سوا کوئی اور انسانی جوڑا موجود ہی نہیں تو نکاح کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اس معاملے میں مسلمان بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جو بات مسلمان پر فرض کی گئی وہ ﷲ پر بھی فرض ہونی چاہیئے ۔ ﷲ پر کچھ فرض نہیں ہے ۔ جو چاہے قانون بنائے ۔ جب چاہے بنائے ۔ جب چاہے ختم کر دے ۔ آج زکات فرض ہے مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دور آئے گا تو اتنی فراوانی ہو جائے گی کہ زکات کی فرضیت ختم ہو جائے گی ۔ ﷲ کی مرضی ۔ جب جس قانون کی ضرورت ہو گی بنایا جائے گا جب ضرورت نہ رہے تو ختم کر دیا جائے گا ۔ یہی ہے بنیادی قانون ۔ باقی تمام قوانین اس قانون کے تحت آتے ہیں ۔ آج بہن اور بھائی کا آپس میں نکاح حرام ہے مگر آدم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ پہلے سال پیدا ہونے والے لڑکا اور لڑکی کو دوسرے سال پیدا ہونے والی لڑکی اور لڑکے سے بیاہ دو ۔ بعض مسلمان تاویلیں گھڑتے پھرتے ہیں کہ اس دور میں پہلے سال پیدا ہونے والے اور دوسرے سال پیدا ہونے والوں کے بہن بھائی نہیں ہوتے تھے ۔ ضرورت کیا ہے اس تاویل کی ؟ ﷲ کا حکم تھا اس لئے فرض تھا جب منع کر دیا گیا تو حرام ہو گیا ۔ ﷲ کی مرضی ۔ کون ہے روکنے والا ؟ بندر کی اولادوں سے نہ مومن ڈرتے ہیں نہ ان کا رب ڈرتا ہے ۔ ولا یخاف عقباہا ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمثیل ﷲ نے قرآن میں پیش کر دی کہ جیسے آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے معجزاتی طریقے سے پیدا کیا گیا ویسے ہی عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے معجزاتی طریقے سے پیدا فرمایا گیا ۔ کون ہے اعتراض کرنے والا ﷲ کی تخلیقات پہ ؟ جو ملحد آج تک میرے ایک سوال کا جواب نہ دے پائے کہ ایک قطرہ مادہ منویہ نو مہینے شکمِ مادر میں پرورش پا کر جیتے جاگتے انسان میں کیسے تبدیل ہو جاتا ہے وہ اعتراض کریں گے ؟ سو بسم ﷲ ۔

No comments:

Post a Comment