Wednesday, August 31, 2016

19. AURAT KI GAWAHI ADHI KIYU ?


اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 19
مرد اور عورت کی گواہی میں مساوات کیوں نہیں؟

"دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟ "
دو عورتوں کی گواہ ہمیشہ ایک مرد کی گواہی کے برابر نہیں۔ قرآن مجید میں تین آیات ہیں جن میں مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر گواہی کے احکام آئے ہیں:
وراثت کے متعلق وصیت کرتے وقت دو دال اشخاص کی گواہی کی ضرورت ہوتی ہے :
سورۃ مائدہ میں قرآن عظیم کہتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ(سورۃ المائدہ 5 آیت 106)
" اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے تو تمہارے درمیان گواہی ہونی چاہیئے۔ ترکے کی وصیت کے وقت دو انصاف والے اپنے ( مسلمانوں ) میں سے گواہ بنا لو اگر تم زمین میں سفر پر نکلو اور ( راستے میں ) موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر قوم کے دو ( گواہ بھی کافی ہوں گے )۔
( سورۃ المائدہ 5 آیت 106)
طلاق کے معاملے میں دو عادل اشخاص کو گواہ بنانے کا حکم ہے :
وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ( سورۃ الطلاق 65 آیت 2)
" اور تم اپنے میں سے دو اشخاص کو گواہ بنالو جو عادل ہوں اور اللہ کے لیئے گواہی دو۔ "
( سورۃ الطلاق 65 آیت 2)
پاکباز عورت کے خلاف گواہی کیلئے چار شہادتیں درکار ہیں:
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٤) ( سورۃ النور 24 آیت 4)
" اور جو لوگ پاکباز عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر وہ چار گواہ پیش نہ کرسکیں ( اپنے الزام کی تصدیق میں ) تو ان کو 80 کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔ اور یہی لوگ نافرمان ہیں۔"
( سورۃ النور 24 آیت 4)
مالی لین دین میں عورت کی گواہی :
یہ صحیح نہیں کہ ہمیشہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوگی۔ یہ صرف چند معاملات کے لیے ہے۔ قرآن میں 5 آیات ہیں جن میں گواہی کے بارے میں مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ صرف ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ یہ سورۃ بقرہ کی آیت 282 ہے۔ مالی معاملات کے متعلق یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخْرَى (سورۃ البقرہ 2 آیت 282)
" اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے لیے ایک دوسرے سے ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور لکھنے والے کو چاہیئے کہ تمہارے دریمان انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے، جیسے اللہ نے اسے سکھایا ہے اسے لکھنا چاہیئے، اور وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے قرض ہو اور اسے اپنے رب، اللہ سے ڈرنا چاہیئے اور ( لکھواتے وقت ) وہ ( مقروض ) اس میں سے کوئی چیز کم نہ کرے ۔ لیکن اگر وہ فرد جس کے ذمے قرض ہو، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوائے، اور تم اپنے مسلمان مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، پھر اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں کے طور پر پسند کرو ( یہ اس لیے ) کہ ایک عورت بھول جائے تو ان میں سے دوسرے اُسے یاد دِلا دے۔ "
( سورۃ البقرہ 2 آیت 282)
قرآن کی یہ آیت صرف مالی معاملات اور لین دین کیلئے ہے۔ اس قسم کے معاملات میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ معاہدے کو دونوں فریقوں کے مابین لکھا جائے اور دو گواہ بنائے جائیں اور یہ کوشش کی جائے کہ وہ صرف مرد ہوں۔ اگر دو مرد نہ مل سکیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں کافی ہیں۔
اسلامی شریعت مین مالی معاملات میں دو مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسلام مرد سے خاندان کی کفالت کی توقع کرتا ہے۔ چونکہ اقتصادی ذمہ داری مردوں پر ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ لین دین میں عورتوں کی نسبت زیادہ علم و آگہی رکھتے ہیں۔ دوسری صورت میں ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوں گی کہ اگر ایک غلطی پر ہو تو دوسری اُسے یاد دِلا دے ۔ قرآن میں عربی لفظ "تَضِل" یا " بھول جاتا "، یوں صرف مالی معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر رکھی گئی ہے۔
قتل کے مقدمات میں نسوانی گواہی :
اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں کہ عورتوں کی شہادت قتل کے معاملے میں بھی دوہری ہے، یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔ اس قسم کے معاملات میں عورت ، مرد کی نسبت زیادہ خوفزدہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی جذباتی حالت کی وجہ سے پریشان ہوسکتی ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں کے نزدیک قتل کے مقدمات میں بھی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔
کچھ علماء کے نزدیک دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی کی برابری تمام معاملات کے لیے ہے۔ اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سورۃ نور میں ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے:
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (٦)وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (٧)وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (٨)وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ (٩) ( سورۃ النور 24 آیات 6 تا 9)
" اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہ ہو سوائے ان کی اپنی ذات کے ، تو ان مین سے اہر ایک کی شھادت اس طرح ہوگی کہ چار بار اللہ قسم کھا کر کہے کہ بے شک وہ سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں بار یہ کہے۔ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہوتو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور اس عورت سے سزا تب ٹلتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ بلا شبہ وہ ( اس کا شوہر ) جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر وہ ( شوہر ) سچوں میں سے ہوتو اس ( عورت ) پر اللہ کا غضب ہو۔
( سورۃ النور 24 آیات 6 تا 9)
حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی گواہی :
حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے ، جو ہمارے نبی (ﷺ) کی بیوی تھیں، کم و بیش 2220 کے قریب احادیث مروی ہیں۔ جو صرف ان کی واحد شہادت کی بدولت مستند ہیں، یہ امر اس کا واضح ثبوت ہے کہ صرف ایک عورت کی گواہی بھی قبول کی جاسکتی ہے۔
بہت سے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایک عورت کی گواہی پہلی رات کا چاند دیکھنے کے لیے بھی کافی ہے۔ اندازہ کریں کہ روزہ رکھنے کے لیئے جو اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ ایک عورت کی گواہی کافی ہے اور اسکی گواہی پر تمام مسلمان مرد و عورتیں روزی رکھتے ہیں۔ کچھ فقہاء کے نزدیک آغازِ رمضان کے سلسلے میں ایک گواہی درکار ہے جبکہ اس کے ختم ہونے کے لیئے دو گواہیاں ضروری ہوں گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گواہی دینے والے مرد ہوں یا عورتیں۔
بعض معاملات میں عورتوں ہی کی گواہی کو ترجیح حاصل ہے :
بعض معاملات میں صرف خاتون گواہ درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عورتوں کے مسائل عورت کی تدفین کے وقت غسل کے معاملات میں صرف عورت ہی کی گواہی مستند ہوگی۔ ایسے معاملات میں مرد کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔
ایسے گواہی کے کیس مخصوص ہیں ، ہر کیس کی گواہی میں دو عورتوں کا ہونا ضروری نہیں ۔ مثلا اگر مسئلہ رضاعت(عورت کے کسی کو دودھ پلایا جو اسکی اولاد نا تھی وہ اسکا رضائ بیٹا ہوگا)۔ یہاں عورت کی گواہی 1000 مردوں پر بھاری ہوگی ۔
مطلب اگر عورت عدالت میں کسی بچے کے متعلق یہ کہے کے یہ میرا رضائی بیٹا ہے اور اس کی مخالفت میں کتنے ہی مرد کھڑے ہوجائیں، اس اکیلی عورت کی ہی گواہی قبول کی جائے گی.۔۔
مالی معاملات میں مرد اور عورت کی گواہیوں میں نظر آنے والی عدم مساوات اسلام کے نزدیک کسی صنفی عدم مساوات کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ صرف معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی مختلف نوعیت اور مختلف کردادوں کی بناء پر ہے جو اسلام نے اُن کے لیئے متعین کیئے ہیں۔


22.AURAT KA WIRASAT ME ADHA HISSA KYU ?


اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 22
اسلام کا نظامِ وراثت غیر منصفانہ کیوں؟
" اسلامی قوانینِ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کی نسبت آدھا کیوں ہے؟ "

قرآن عظیم میں بہت سی آیات ہیں جن میں ورثے کی جائز تقسیم سے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً:
1) سورۃ بقرہ آیات: 180 اور 240
2) سورۃ النساء آیات: 7-9 اور آیات 19 اور 33
3) سورۃ مائدہ آیات: 106 تا 108
رشتہ داروں کا وراثت میں مخصوص حصہ :
قرآن مجید میں 3 آیات ہیں جو واضح طور پر قریبی رشتہ داروں کے وراثت میں مقررہ حصے بیان کرتی ہیں، جن میں سے دو درج زیل ہیں:
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (١١)وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (١٢)
" اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے: مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ پھر اگر ( دو یا ) دو سے زیادہ عورتیں ہی ہوں تو ان کے لیئے ترکے میں دو تہائی حصہ ہے۔ اور اگر ایک ہی بیٹی ہو تو اس کے لیئے آدھا حصہ، اور اس ( مرنے والے ٰ) کے والدین میں سے ایک کے لیئے ترکے میں چھٹا حصہ ہے اگر اس کی اولاد ہو ، لیکن اگر اس کی اولاد نہیں اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کے لیئے تیسرا حصہ ہے اور اس کے ( ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیئے چھٹا حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ تم نہیں جانتے کہ تہمارے والدین یا اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ ( اللہ ) کی طرف سے مقرر ہے۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ اور جو کچھ تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اس میں تمہارا نصف حصہ ہے اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو، لیکن اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں تمہارا چوتھا حصہ ےہ۔ ( یہ تقسیم ) ان کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ اور اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو تہمارے ترکے میں تمہاری بیویوں کا چوتھا حصہ ہے، لیکن اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکے میں ان کا آٹھواں حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) تہماری وصیت پر عمل یا ادائیگی قرض کے بعد ہوگی۔ اور اگر وہ آدمی جس کا ورثہ تقسیم کیا جارہا ہے۔ اُس کا بیٹا نہ ہو باپ، یا ایسی ہی عورت ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیئے چھٹا حصہ ہے۔ لیکن اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو وہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی جبکہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے تاکید ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑے حوصلے والا ہے۔
( سورۃ النساء ، ایات 11 و 12)
مزید فرمایا:
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (١٧٦)
" اے نبی (ﷺ) ! لوگ آپ سے فتوٰی مانگتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو پس اگر بہن دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا اور کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔
( سورۃ النساء 4 آیت 176)
عورت کا حصہ برابر بلکہ " دوگنا " بھی ہوسکتا ہے :
وراثت کلی اکثر صورتوں میں عورتوں کو مردوں کا نصف ملتا ہے ، تاہم یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اگر مرنے والے کے ماں باُ یا کوئی بیٹا بیٹی نہ ہوں لیکن اخیافی ( ماں کی طرف سے سگے ) بائی اور بہن ہوں تو دونوں میں سے اہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اور اگر مرنے والے نے بچے چھوڑے ہوں تو ماں اور باپ دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
بعض صورتوں میں ایک عورت کو مرد کی نسبت دوگنا حصہ بھی مل سکتا ہے۔ اگر مرنے والی عورت ہو اور اس کے بچے اور بھائی بہن نہ ہوں۔ اور اس کا شوہر اور ماں باپ وارث ہوں تو شوہر کو آدھی جائیداد جبکہ ماں ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو باقی چھٹا حصہ ملے گا۔
اس معاملے میں بھی ماں کا حصہ باپ سے دوگنا ہے -
مردوں کی نسبت خواتین کا حصہ نصف کب ہے ؟
یہ ٹھیک ہے کہ عام قاعدے کے مطابق عورتیں مرد کی نسبت وراثت میں آدھا حصہ لیتی ہیں ، مثلاً درج ذیل صورتوں میں:
بیٹی کو وراثت میں بیٹے سے نصف ملے گا۔
عورت کو آٹھواں حصہ ملے گا اور شوہر کو چوتھا، اگر مرنے والے / والی اولاد ہو۔
عورت کو چوتھا حصہ اور شوہر کو آدھا ملے گا اگر مرحوم / مرحومہ کی اولاد نہ ہو۔
اگر مرنے والے کے ماں باپ یا اولاد نہ ہو تو بہن کو بھائی کے کل ترکے کا نصف ملے گا۔
مرد کا حصہ دوگنا کیوں؟
اسلام میں خاندان کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ شادی سے پہلے باپ یا بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کی رہائش، لباس اور دوسری مالی ضروریات پوری کرے اور شادی کے بعد یہ ذمہ داری شوہر یا بیٹے کی ہے۔ اسلام مرد کو پابند کرتا ہے کہ وہ خادنان کی مالی ضروریات کا ذمہ دار ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیئے اس وراثت میں دوگنا حصہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص ڈیڈھ لاکھ روپیہ چھوڑ کر مرجائے جس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہو تو بیٹے کو ایک لاکھ اور بیٹی کو 50 ہزار ملیں گے۔ ایک لاکھ روپے جو بیٹے کو ورثے میں ملیں گے وہ ان میں خاندان کی کفالت کا زمہ دار ہے۔ اور ہوسکتا ہے وہ خادنان پر تمام رقم یا یوں کہیئے 80 ہزار روپے خرچ کردے۔ یوں درحقیقت اسے ورثے میں سے بہت کم حصہ ملے گا، یعنی 20 ہزار روپے، دوسری طرف بیٹی جس کو 50 ہزار ملیں گے وہ کسی پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی پابند نہیں۔ وہ تمام رقم خود رکھ سکتی ہے، کیا آپ وہ ایک لاکھ روپے لینے کو ترجیح دیں گے جن میں سے آپ کو 80 ہزار روپے یا زائد رقم اوروں پر خرچ کرنی پڑے یا وہ 50 ہزار روپے لیں گے جو مکمل طور پر آپ ہی کے ہوں؟

Sunday, August 28, 2016

ISLAM AUR MODERN MUSLIM (URDU)

اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 20
اسلام اور مسلمانوں کے عمل میں واضح فرق کیوں؟
" اگر اسلام بہترین مذہب ہے تو بہت سے مسلمان بے ایمان کیوں ہیں اور دھوکے بازی، اور رشوت اور منشیات فروشی میں کیوں ملوث ہیں ؟ "
اسلام بلا شبہ بہترین مذہب ہے لیکن میڈیا مغرب کے ہاتھ میں ہے جو اسلام سے خوفزدہ ہے، میڈیا مسلسل اسلام کے خلاف خبریں نشر کرتا اور غلط معلومات پہنچاتا ہے، وہ اسلام کے بارے میں غلط معلومات پہنچاتا ہے وہ اسلام کے بارے میں غلط تاثر پیش کرتا ہے، غلط حوالے دیتا ہے اور واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے، جب کسی جگہ کوئی بم پھٹتا ہے تو بغیر کسی ثبوت کے سب سے پہلے مسلمانوں پر الزام لگا دیا جاتا ہے۔ وہ الزام خبروں میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں جب یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے ذمہ دار غیر مسلم تھے تو یہ ایک غیر اہم اور غیر نمایاں خبر بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پچاس برس کا مسلمان کسی پندرہ سالہ لڑکی سے اس کی اجازت سے شادی کرتا ہے تو مغربی اخبارات میں وہ پہلے صفحے کی خبر بنتی ہے، لیکن جب کوئی 50 سالہ غیر مسلم 6 سالہ لڑکی کی عصمت دری کرتا ہے تو یہ سانحہ اندر کے صفحات میں ایک معمولی سی خبر کے طور پر شائع ہوتا ہے۔ امریکہ میں روزانہ عصمت دری کے 2713 واقعات پیش آتے ہیں لیکن خبروں میں جگہ نہیں پاتے کیونکہ یہ امریکیوں کی طرزِ زندگی کا ایک حصہ ہے۔
ہر معاشرے میں ناکارہ لوگ ہوتے ہیں :
میں اس بات سے باخبر ہوں کہ ایسے مسلمان یقیناً موجود ہیں جو دیانتدار نہیں اور دھوکے بازی اور دوسری مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ لیکن میڈیا یہ ثابت کرتا ہے کہ صرف مسلمان ہی ان کا ارتکاب کرتے ہیں، حالانکہ ایسے افراد اور جرائم دنیا کے ہر ملک اور ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے مسلمان بلا نوش ہیں، اور غیر مسلموں کے ساتھ مل کر شراب نوشی کرتے ہیں۔
مسلم معاشرے کی مجموعی حالت بہتر ہے :
اگرچہ مسلمان معاشرے میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں مگر مجموعی طور پر مسلمانوں کا معاشرہ دنیا کا بہتری معاشرہ ہے۔ ہمارا معاشرہ دنیا کا وہ سب سے بڑا معاشرہ ہے جو شراب نوشی کے خلاف ہے، یعنی ہمارے ہاں عام مسلمان شراب نہیں پیتے۔ مجموعی طور پر ہمارا ہی معاشرہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرتا ہے۔ اور جہاں تک حیائ، متانت، انسانی اقدار اور اخلاقیات کا تعلق ہے دنیا کا کوئی معاشرہ ان کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ بوسنیا، عراق اور افغانستان میں مسلمان قیدیوں سے عیسائیوں کا سلوک اور برطانوی خاتون صحافی کے ساتھ طالبان کے برتاؤ میں واضح فرق صاف ظاہر ہے۔
کار کو ڈرائیور سے پرکھیئے :
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ مرسیڈیز کار کا نیا مادل کیسا ہے اور ایک ایسا شخص جو ڈرائیونگ نہیں جانتا سٹیرنگ پر بیٹھ جائے اور گاڑی کہیں دے مارے تو آپ کس کو الزام دیں گے؟ کار کو یا ڈرائیور کو ؟فطری بات ہے کہ آپ ڈرائیور کو الزام دیں گے۔ یہ دیکھنے کے لیےے کہ کار کتنی اچھی ہے ، ڈرائیور کو نہیں بلکہ کار کی صلاحیت اور اسکے مختلف پہلوؤں کو دیکھنا چاہیئے کہ یہ کتنی تیز چلتی ہے، ایندھن کتنا استعمال کرتی ہے، کتنی محفوظ ہے وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح اگر یہ ابت محض دلیل کے طور پر مان بھی لی جائے کہ مسلمان خراب ہیں تگو بھی ہم اسلام کو اس کے پیروکاروں سے نہیں جانچ سکتے۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کتنا اچھا ہے تو اُسے اس کے مستند ذرائع سے پرکھیں، یعنی قرآن مجید اور صحیح احادیث سے!
اسلام کو محمد (ﷺ) کی ذات ِ گرامی سے پرکھیں :
اگر آپ عملی طور پر یہ دیکھنا چاہیں کہ کار کتنی اچھی ہے تواس کے سٹیرنگ وہیل پر کسی ماہر ڈرائیور کو بٹائیں، اسی طرح یہ دیکھنے کے لیے کہ اسلام کتنا اچھا دین ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے آخری پیغمبر (ﷺ) کو سامنے رکھ کر دیکھیں، مسلمانوں کے علاوہ بہت سے دیانتدار اور غیر متعصب غیر مسلم مؤرخون نے علانیہ کہا ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) بہترین انسان تھے، مائیکل ایچ ہارٹ نے " تاریخ پر اثر انداز ہونے والے سو انسان " کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں سر فہرست پیغمبر اسلام محمد (ﷺ) کا اسم گرامی ہے، غیر مسلموں کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں انھوں نے نبی (ﷺ) کی بہت تعریف کی ہے ، مثلاً تھامس کا لائل، لا مارٹن وغیرہ۔

HARAAM AUR HALAAL ( SET OF QUESTIONS) URDU


حرام اور حلال




کچھ سوالات پوچھے گئے تھے گروپ میں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
  • ١ ۔ کیا حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کا نکاح ہوا تھا ؟ کیا یہ نکاح ﷲ نے پڑھایا تھا ؟
  • ٢ ۔ کیا حضرت مریم علیہ السلام کا نکاح ہوا تھا ؟
  • ٣ ۔ ایک سوال اور بھی انٹرنیٹ پر موضوعِ بحث ہے کہ کیا نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ﷲ نے پڑھائی تھی ؟
  • ٤ ۔ پہلی وحی کے نزول کے بعد وحی کا سلسلہ رک جانے کے بعد نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم پہاڑ پر جاتے اور اپنے آپ کو گرا دینے کا ارادہ کرتے مگر جبریل علیہ السلام ان کو روک دیتے ؟


اس بات کی وضاحت میں ایک باردینِ اسلام میں گناہ و ثواب کا تصور صرف اور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جس کام کو کرنے کا حکم ﷲ یا ﷲ کا رسول دے وہ فرض ہے اور جس کام سے ﷲ یا ﷲ کا رسول روک دے وہ حرام ہے ۔
اس بات کی مثال اس بات سے لیجئے کہ شبِ معراج کے واقعے میں نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے سامنے ضیافت کی غرض سے دو گلاس رکھے گئے ۔
ایک گلاس دودھ کا اور دوسرا شراب کا ۔
نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے دودھ کو پسند فرمایا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یا رسول ﷲ اگر آپ شراب کو پسند فرماتے تو آپ کی امت فتنے میں مبتلا ہو جاتی ۔
یہاں مسلمانوں میں بھی یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگر معاذ ﷲ رسولِ کریم صلی ﷲ علیہ وسلم شراب کی طرف ہاتھ بڑھا دیتے تو کسی حرام کام کے کرنے کے مرتکب ہو جاتے (معاذ ﷲ) ۔ حالانکہ جو بات جبریل علیہ السلام ارشاد فرما رہے ہیں وہ کسی اور طرف اشارہ کرتی ہے ۔
دینِ اسلام میں ﷲ اور رسول کا حکم فرض کا درجہ رکھتا ہے اور جو کام نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم اختیار فرما لیں وہ سنت کا درجہ رکھتا ہے ۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کا شراب کی طرف ہاتھ نہ بڑھانا اس کی حرمت کے سبب نہیں بلکہ حکمت کے سبب تھا ۔ ورنہ جو چیز ﷲ کی طرف سے ہی ضیافت میں پیش کی گئی اس کو اختیار کرنے کا گناہ ﷲ کیسے دے سکتا ہے ؟ یعنی جو بات جبریل علیہ السلام نے فرمائی وہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم شراب کو اختیار کرتے تو شراب کی حرمت کا حکم ہی نہ آتا ۔ لیکن چونکہ وہ انسان کی دماغی اور جسمانی صحت کے لئے اچھی نہیں لہٰذا امت فتنے میں مبتلا ہو جاتی ۔
اس کی ایک مثال حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے جنت والے واقعے میں بھی موجود ہے ۔
حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت میں داخل کیا گیا تو ان کو کہا گیا کہ کھاؤ پیو جہاں سے چاہو مگر اس درخت کے پاس مت جانا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔
امتِ مسلمہ کے زیادہ تو مفسرین کے مطابق جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا وہ گندم تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گندم حرام ہے ؟ جی نہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ حرام اور حلال کی تمیز بتاتا کون ہے ؟ صرف اور صرف ﷲ ۔ اگر ﷲ کہے گندم حلال ہے تو حلال ہو گئی اور جب ﷲ کہہ دے حرام تو حرام ہو گی ۔ یہی معاملہ شراب اور تمام باقی چیزوں کے ساتھ بھی ہے ۔ ابلیس کو کہا گیا کہ آدم کو سجدہ کرو ۔ کیا آدم کو سجدہ کرنا حلال ہے ؟ جی نہیں ۔ مگر اگر حرام اور حلال قرار دینے کا حق ہی ﷲ کا ہے اور وہی کہہ رہا ہے کہ کرو تو جو کام آج حرام ہے وہ اس وقت فرض تھا ۔ فرشتے ان قوانین سے واقف تھے ۔ لہٰذا وہ بغبر کسی حیل و حجت کے فوراً سجدے میں چلے گئے ۔ ورنہ ﷲ کی عبادت گزار مخلوق سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے کی ﷲ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا کیسا عمل ہے ؟ ﷲ کو سجدہ ﷲ کی خوشنودی کی غرض سے ہی تو کیا جاتا ہے اور اگر ﷲ ہی کہے کہ آدم کو سجدہ کرو تو جس کا مقصد ﷲ کی خوشنودی ہے اسے اس پر بھی اعتراض نہ ہو گا ۔
یہی معاملہ صادق آتا ہے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے اپنے آپ کا پہاڑ سے گرا لینے کے ارادے پہ ۔ جبریل علیہ السلام کا ان کو روک دینا اس سبب نہیں تھا کہ خودکشی حرام ہے ۔ یہ اصول تو بعد میں طے ہونا تھے ۔ مقاصد وسیع تر تھے اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم ﷲ کی حکمتوں سے لاعلم تھے ۔ جو وحی کے ذریعے بعد میں گاہے بہ گاہے ان کو بتائی جاتی رہیں ۔
اس ضمن کا ایک سوال اور بھی ہے اس کا جواب ہو جائے پھر نکاح کے حوالے سے بات ہو گی ۔
کیا نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ﷲ نے پڑھائی تھی ؟ جی نہیں ۔ بالکل بھی نہیں ۔
پہلے تو اس بات کو سمجھ لیجئے کہ نمازِ جنازہ ہے کیا ؟
جب بھی کوئی مومن فوت ہو جاتا ہے تو اس کا حق ہوتا ہے کہ دوسرے مسلمان نمازِ جنازہ کے ذریعے اس کی مغفرت کی سفارش کریں اور ﷲ سے دعا مانگیں کہ ﷲ ان کے فوت شدہ کے گناہ معاف کر کے اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے ۔ اس پورے عمل کو نمازِ جنازہ کہا جاتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم (معاذ ﷲ)خطا کار تھے ؟ جی نہیں ۔ ذرہ برابر بھی نہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام جن کو ہر مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھانا خود نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے سکھائی تھی انہوں نے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائی ۔ بس کچھ مسلمان حجرۂ عائشہ رض میں جاتے اور درود و سلام پڑھ کر باہر آجاتے ۔ پھر اور لوگ چلے جاتے ۔ جب یہ سلسلہ تھم گیا تو تدفین کر دی گئی ۔
او بھائیو ! جس نبی نے روزِ آخرت میں پوری امتِ مسلمہ کی سفارش محض اپنے ذاتی اعمال کے بل بوتے پہ کرنی ہے کس کی ہمت تھی جو ان کی نمازِ جنازہ کی امامت کے مصلے پر کھڑا ہو کر ﷲ سے ان کی مغفرت کی سفارش کرتا ؟ یہی وجہ ہے کہ کسی صحابی نے یہ کام نہ کیا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نمازِ جنازہ ﷲ نے پڑھائی ؟ افسوس صد افسوس ۔ ﷲ کیوں پڑھائے گا نمازِ جنازہ ؟ ﷲ کس کو کہے گا کہ اس بندے کو بخش دے جب کہ بخشنے والی ذات خود اسی کی ہے ؟ جو کام کیا ہی ﷲ کی خوشنودی کے لئے جا رہا ہے وہ ﷲ کس کی خوشنودی کے لئے کرے گا ؟
اب آجائیے نکاح کی طرف ۔ یہ بات بالکل واضح ہو چکی کہ حرام کیا ہے اور حلال کیا ہے لہٰذا اب اس نکتے کو سمجھنا نہایت آسان ہے ۔
کیا نکاح کسی ایسے فلٹر کا نام ہے جس کے بیچ میں آجانے سے پیدا ہونے والے بچوں کے حرام یا حلال ہونے کا فیصلہ ہو گا ؟ جی نہیں ۔ یہ بھی ﷲ کا ایک حکم ہی تو ہے ۔
نکاح کا حکم صرف اس لئے دیا گیا ہے تاکہ مرد اپنے لئے کچھ عورتیں مخصوص کر لے اور جگہ جگہ منہ نہ مارتا پھرے ۔ گواہان کی شرط اس لئے ہے کہ اس پر بعد میں زنا کاری کا الزام نہ لگایا جا سکے ۔ مگر جب ﷲ نے صرف ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت کو پیدا کیا اور یہ بات طے شدہ ہے کہ روئے زمین پر ان کے سوا کوئی اور انسانی جوڑا موجود ہی نہیں تو نکاح کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اس معاملے میں مسلمان بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جو بات مسلمان پر فرض کی گئی وہ ﷲ پر بھی فرض ہونی چاہیئے ۔ ﷲ پر کچھ فرض نہیں ہے ۔ جو چاہے قانون بنائے ۔ جب چاہے بنائے ۔ جب چاہے ختم کر دے ۔ آج زکات فرض ہے مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دور آئے گا تو اتنی فراوانی ہو جائے گی کہ زکات کی فرضیت ختم ہو جائے گی ۔ ﷲ کی مرضی ۔ جب جس قانون کی ضرورت ہو گی بنایا جائے گا جب ضرورت نہ رہے تو ختم کر دیا جائے گا ۔ یہی ہے بنیادی قانون ۔ باقی تمام قوانین اس قانون کے تحت آتے ہیں ۔ آج بہن اور بھائی کا آپس میں نکاح حرام ہے مگر آدم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ پہلے سال پیدا ہونے والے لڑکا اور لڑکی کو دوسرے سال پیدا ہونے والی لڑکی اور لڑکے سے بیاہ دو ۔ بعض مسلمان تاویلیں گھڑتے پھرتے ہیں کہ اس دور میں پہلے سال پیدا ہونے والے اور دوسرے سال پیدا ہونے والوں کے بہن بھائی نہیں ہوتے تھے ۔ ضرورت کیا ہے اس تاویل کی ؟ ﷲ کا حکم تھا اس لئے فرض تھا جب منع کر دیا گیا تو حرام ہو گیا ۔ ﷲ کی مرضی ۔ کون ہے روکنے والا ؟ بندر کی اولادوں سے نہ مومن ڈرتے ہیں نہ ان کا رب ڈرتا ہے ۔ ولا یخاف عقباہا ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمثیل ﷲ نے قرآن میں پیش کر دی کہ جیسے آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے معجزاتی طریقے سے پیدا کیا گیا ویسے ہی عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے معجزاتی طریقے سے پیدا فرمایا گیا ۔ کون ہے اعتراض کرنے والا ﷲ کی تخلیقات پہ ؟ جو ملحد آج تک میرے ایک سوال کا جواب نہ دے پائے کہ ایک قطرہ مادہ منویہ نو مہینے شکمِ مادر میں پرورش پا کر جیتے جاگتے انسان میں کیسے تبدیل ہو جاتا ہے وہ اعتراض کریں گے ؟ سو بسم ﷲ ۔

Saturday, August 27, 2016

CHAR SHADIYO KI IJAZAT KIYU? (چار شادیوں کی اجازت کیوں?)

چار شادیوں کی اجازت کیوں؟
ملحدین کے پاس گنے چنے اعتراضات کے سوا کچھ نہیں اس لئیے انہیں اعتراضات کو گھما پھر کر اپنا الُو سیدھا کرتے نظر آتے ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت کیوں دی ہے؟ یہ زیادتی ہے وغیرہ۔ مگر ان موصوف کو اپنے "مثالی معاشرے" نظر نہیں آتے جہاں گرل فرینڈ رکھنا تو معمولی بات ہے مگر نکاح کر کے قانونی طور پر بیوی بنانے پر ان کو اعتراض ہے۔ اسلام نے بیویوں کے نان نقفے کے حقوق مقرر کیے ہیں مگر گرل فرینڈز کے کیا حقوق ان معاشروں نے مقرر کیے ہیں؟ صرف ایک ٹشو پیپر ہے استعمال کیا اور پھینک دیا۔ آئیے ان ممالک پر ایک سرسری سی نظر مارتے ہیں۔ 
مختلف ممالک میں اوسط " جنسی پارٹنرز" کی تعداد
آسٹریلیا۔ 13
نیوزیلینڈ۔ 13.2
آئسلینڈ۔ 13
فن لینڈ۔ 12.4
ناروے۔ 12.1
اٹلی۔ 11.8
سویڈن۔ 11.8
آئرلینڈ۔ 11.1
سویٹزرلینڈ۔ 11
کینیڈا۔ 10.7
امریکہ۔ 10.7
یونان، اسرائیل، تھائلینڈ۔ 10.6
آسٹریلیا، ڈنمارک،فرانس، بیلجیم، سنگاپور۔ 9
And so on and so forth. 
تو جناب غالب کمال صاحب ان سب ملکوں میں لڑکی اوسطاً 12 یا 13 لڑکے بدلتی ہے اس پر اعتراض نہیں ہماری چار قانونی شادیوں پر مراثیوں والا چموٹا لے کر آ جاتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ غایت درجہ معتدل اور متوسط ہے افراط اور تفریط کے درمیان میں ہے نہ تو عیسائیوں کے راہبوں اور ہندوؤں کے جوگیوں اور گسایوں کی طرح ملنگ بننے کی اجازت دیتی ہے اور نہ صرف ایک عورت ہی پر قناعت کرنے کو لازم گردانتی ہے بلکہ حسب ضرورت ومصلحت ایک سے چار تک اجازت دیتی ہے۔ چنانچہ پادری لوگ بھی نظر عمیق کے بعد اسی کا فتوی دیتے ہیں جیسا کہ کتاب مسمی بہ اصلاح سہو مطبوعہ امریکن مشن پریس ١٨٧١ ء میں لکھتے ہیں کہ تعدد ازددواج بنی اسرائیل میں تھا اور خدا نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ برکت کا وعدہ کیا اور عارئین لوتھر نے فلپ کو دو جروں کی اجازت دی تھی منقول از تفسیرحقانی ص ١٦٦ ج ٣۔ تاریخ عالم کے مسلمات میں سے ہے کہ اسلام سے پہلے تمام دنیا میں یہ رواج تھا کہ ایک شخص کئی کئی عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور یہ دستور تمام دنیا میں رائج تھا حتی کہ حضرات انبیاء بھی اس دستور سے مستثنی نہ تھے۔ حضرت ابراہیم کی دوبیبیاں تھیں حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ حضرت اسحاق کے بھی متعدد بیویاں تھیں حضرت موسیٰ کے بھی کئی بیویاں تھیں اور سلیمان (علیہ السلام) کے بیسوں بیویاں تھیں اور حضرت داوؤد (علیہ السلام) کے سو بیویاں تھیں اور توریت وانجیل ودیگر صحف انبیاء میں حضرات انبیاء کی متعدد ازواج کا ذکر ہے اور کہیں اس کی ممانعت کا ادنی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا صرف حضرت یحیٰی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایسے نبی گزرے ہیں کہ جنہوں نے بالکل شادی نہیں کی ان کے فعل کو اگر استدلال میں پیش کیا جائے تو ایک شادی بھی ممنوع ہوجائے گی احادیث میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور نزول کے بعد شادی فرمائیں گے اور ان کے اولاد بھی ہوگی۔ غرض یہ کہ علماء یہود اور علماء نصاری کو مذہبی حیثیت سے تعدد ازواج پر اعتراض کا کوئی حق نہیں صرف ایک ہی بیوی رکھنے کا حکم کسی مذہب اور ملت میں نہیں نہ ہندوں کے شاستروں میں نہ توریت میں اور نہ انجیل میں صرف یورپ کارواج ہے نہ معلوم کس بنا پر یہ رواج رائج ہوا اور جب سے یورپ میں یہ رواج چلا اس وقت مغربی قوموں میں زناکاری کی اس درجہ کثرت ہوئی کہ پچاس فیصد آبادی غیر ثابت النسب ہے اور جن قوموں نے تعدد ازدواج کو برا سمجھا ہے وہی قومیں اکثر زناکاری میں مبتلا ہیں۔ اسلام سے بیشتر دنیا کے ہر ملک اور ہر خطہ میں کثرت ازدواج کی رسم خوب زور شور سے رائج تھی اور بعض اوقات ایک ایک شخص سو عمر تک عورتوں سے شادیاں کرلیتا تھا اسلام آیا اور اس نے اصل تعداد کو جائز قرار دیا مگر اس کی ایک حد مقرر کردی اسلام نے تعدد ازدواج کو واجب اور لازم قرار نہیں دیا بلکہ بشرط عدل وانصاف اس کی اجازت دی کہ تم کو چار بیویوں کی حد تک نکاح کی اجازت ہے اور اس چار کی حد سے تجاوز کی اجازت نہیں اس لیے کہ نکاح سے مقصود عفت اور تحصین فرج ہے چار عورتوں میں جب ہر تین شب کے بعد ایک عورت کی طرف رجوع کرے گا تو اس کے حقوق زوجیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا شریعت اسلامیہ نے غایت درجہ اعتدال اور توسط کو ملحوظ رکھا کہ نہ تو جاہلیت کی طرح غیر محدود کثرت ازدواج کی اجازت دی کہ جس سے شہوت رانی کادروازہ کھل جائے اور نہ اتنی تنگی کی کہ ایک عورت سے زائد کی اجازت ہی نہ دی جائے بلکہ بین بین حالت کو برقرار رکھا کہ چار تک اجازت دی تاکہ نکاح کی غرض وغایت یعنی عفت اور حفاظت نظر اور تحصین فرج اور تناسل اور اولاد بسہولت حاصل ہوسکے اور زنا سے بالکلیہ محفوظ ہوجائے اس لیے کہ بعض قوی اور توانا اور تندرست اور فارغ البال اور خوش حال لوگوں کو ایک بیوی سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بوجہ قوت اور توانائی اور اوپر سے فارغ البال اور خوش حالی کی وجہ سے چار بیویوں کے بلاتکلف حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔
(بلکہ) ایسے قوی اور تواناجن کے پاس لاکھوں کی دولت بھی موجود ہے اگر وہ اپنے خاندان کی چار غریب عورتوں سے اس لیے نکاح کریں کہ ان کی تنگ دستی مبدل، بفراخی ہوجائے اور غربت کے گھرانہ سے نکل کر ایک راحت اور دولت کے گھر میں داخل ہوں اور اللہ کی نمعت کا شکر کریں تو امید ہے کہ ایسا نکاح اسلامی نقطہ نظر سے بلاشتبہ عبادت اور عین عبادت ہوگا اور قومی نقطہ نظر سے اعلی ترین قومی ہمدردی ہوگی جس دولت مند اور زمیندار اور سرمایہ دار کے خزانہ سے ہر مہینہ دس ہزار مزدوروں کو تنخواہیں ملتی ہوں اور دس ہزار خاندان اس کی اعانت اور امداد سے پرورش پاتے ہوں تو اگر اس کے خاندان کی چار عورتیں بھی اس کی حرم سرائے میں داخل ہوجائیں اور عیش وعشرت کے ساتھ ان کی عزت وناموس بھی محفوظ ہوجائے تو عقلا وشرعا اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ اگر کوئی بادشاہ یا صدر مملکت یا وزیر سلطنت یا کوئی صاحب ثروت ودولت بذریعہ اخبار یہ اعلان کرے کہ میں چار عورتوں سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور ہر عورت کو ایک ایک لاکھ مہردوں گا اور ایک ایک بنگلہ کاہر ایک کو مالک بنادوں گا جو عورت مجھ سے نکاح چاہے وہ میرے پاس درخواست بھیج دے۔
(تو سب سے پہلے)۔ انہی بیگمات کی درخواستیں پہنچیں گی جو آج تعدد ازدواج کے مسئلہ پر شور برپا کررہی ہیں یہی بیگمات سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنی بیٹیوں اور بھتیجیوں اور بھانجیوں کو لے کر امراء اور وزارء کے بنگلوں پر خود حاضر ہوجائیں گی اور اگر کوئی امیر اور وزیر ان کے قبول کرنے میں کچھ تامل کرے گا تو یہی بے گمات دل آویز طریقہ سے ان کو تعدد ازدواج کے فوائد اور منافع سمجھائیں گی۔
٢۔ نیز بسااوقات ایک عورت امراض کی وجہ سے یا حمل اور تولد النسل کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتی کہ مرد اس سے منتفع ہوسکے تو ایسی صورت میں مرد کے زنا سے محفوظ رہنے کی عقلا اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ اس کو دوسرے نکاح کی اجازت دی جائے۔
حکایت۔ ایک بزرگ کی بیوی نابینا ہوگئی تو انہوں نے دوسرا نکاح کیا تاکہ یہ دوسری بیوی پہلی بیوی نابینا کی خدمت کرسکے اہل عقل فتوی دیں کہ اگر کسی کی پہلی بیوی معذور ہوجائے اور دوسرا نکاح اس لیے کرے تاکہ دوسری بیوی پہلی بیوی کی خدمت کرسکے اور اس کے بچوں کی تربیت کرسکے کیا یہ دوسرا نکاح عین عبادت اور عین مروت اور عین انسانیت نہ ہوگا۔
٣۔ نیز بسااوقات عورت امراض کی وجہ سے یا عقیم (بانجھ) ہونے کی وجہ سے توالدالنسل کے قابل نہیں رہتی اور مرد کو بقاء نسل کی طرف فطری رغبت ہے ایسی صورت میں عورت کو بے وجہ طلاق دے کر علیحدہ کرنا یا اس پر کوئی الزام لگا کر طلا دے دینا جیسا کہ دن رات یورپ میں ہوتا رہتا ہے یہ صورت بہتر ہے یا یہ صورت بہتر ہے کہ اس کی زوجیت اور اس کے حقوق کو محفوظ رکھ کر دوسرے نکاح کی اجازت دے دیں بتلاؤ کون سی صورت بہتر ہے اگر کسی قوم کو اپنی تعداد بڑھانی منظور ہو یا عام طور پر بنی نوع کی افزائش نسل مدنظر ہو تو سب سے بہتر یہی تدبیر ہوسکتی ہے کہ ایک مرد کئی شادیاں کرے تاکہ بہت سی اولاد پیدا ہو۔
٤۔ نیز عورتوں کی تعداد قدرتا اور عادۃ مردوں سے زیادہ ہے مرد بہ نسبت عورتوں کے پیدا کم ہوتے ہیں اور مرتے زیادہ ہیں لاکھوں مرد لڑائیوں میں مارے جاتے ہیں اور ہزاروں مرد جہازوں میں ڈوب جاتے ہیں اور ہزاروں کانوں میں دب کر اور تعمیرات میں بلندیوں سے گر کر مرجاتے ہیں اور عورتیں پیدا زیادہ ہوتی ہیں اور مرتی کم ہیں پس اگر ایک مردکو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں بالکل معطل اور بے کار رہیں کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمہ دار بنے اور کس طرح عورتیں اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں پس تعدد ازدواج کا حکم بے بس کس عورتوں کاسہارا ہے اور ان کی عصمت اور ناموس کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کانگہبان اور پاسبان ہے عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے کہ تم کوتکلیف سے بچایا اور راحت پہنچائی اور ٹھکانا دیا اور لوگوں کی تہمت اور بدگمانی سے تم کو محفوظ کردیا دنیا میں جب کبھی عظیم الشان لڑائیاں پیش آتی ہیں تو مرد ہی زیادہ مارے جاتے ہیں اور قوم میں بے کس عورتوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو اس وقت ہمدرداں قوم کی نگاہیں اس اسلامی اصول کی طرف اٹھ جاتی ہیں ابھی تیس سال قبل کی بات ہے کہ جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک جن کے مذہب میں تعداد ازددواج جائز نہیں عورتوں کی بے کسی کو دیکھ کر اندر ہی اندر تعداد ازدواج کے جواز کا فتوی تیار کررہے تھے۔ جو لوگ تعدد ازدواج کو برا سمجھتے ہیں ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جب ملک میں عورتیں لاکھوں کی تعداد میں مردوں سے زیادہ ہوں تو ان کی فطری اور طبعی جذبات اور ان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کے پاس کیا حل ہے اور آپ نے ان بے کس عورتوں کی مصیبت دور کرنے کے لیے کیا قانون بنایا ہے افسوس اور صد افسوس کہ اہل مغرب اسلام کے اس جائز تعدد پر عیش پسندی کا الزام لگائیں اور غیر محدود ناجائز تعلقات اور بلا نکاح کے لاتعداد آشنائی کوتہذیب اور تمدن سمجھیں زنا جو کہ تمام انبیاء اور مرسلین کی شریعتوں میں حرام اور تمام حکماء کی حکمتوں میں قبیح رہا مغرب کے مدعیان تہذیب کو اس کا قبح نظر نہیں آتا اور تعدد ازدواج کہ جو تمام انبیاء ومرسلین اور حکماء اور عقلاء کے نزدیک جائز اور مستحسن رہا وہ ان کو قبیح نظر آتا ہے ان مہذب قوموں کے نزدیک تعدد ازدواج تو جرم ہے اور زنا اور بدکاری جرم نہیں۔

 ایک منکر حدیث کی پوسٹ